کوویڈ 19 ویکسین کے منفی اثرات

حفاظتی ویکسین لگنے کے بعد کسی شخص میں کسی بھی غیر متوقع طبی پریشانی کو ’ایڈورس ایفیکٹ‘ یا منفی اثر کہا جاتا ہے۔‘’یہ منفی اثر بذات خود ویکسین کی وجہ سے ہو سکتا ہے جبکہ یہ پیچیدگی ویکسینیشن کے عمل یا کسی اور وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ منفی اثرات تین اقسام کے ہوتے ہیں، معمولی، سنگین اور انتہائی سنگین۔‘ ان شکایات میں زیادہ تر معمولی ہیں، جنھیں ’مائنر ایڈورس ایفیکٹ‘ کہا جاتا ہے۔ ایسے کیسز میں درد، ٹیکے کی جگہ پر سوجن، ہلکا بخار، جسم میں درد، گھبراہٹ اور الرجی جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
مگر چند کیسز میں سنگین منفی اثرات بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔ایسے کیسز میں ویکسین لگوانے والے فرد کو تیز بخار ہو سکتا ہے یا ان میں انفلیکسس (شدید الرجی) کی شکایت ہو سکتی ہے۔ تاہم ان پیچیدگیوں کے دور رس اثرات نہیں ہوتے ہیں۔ اس نوعیت کے اثرات کے شکار افراد کو ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔لیکن انتہائی سنگین ایڈورس ایفیکٹ کے حالات میں بعض اوقات ایمرجنسی بنیادوں پر ہسپتال کا رُخ بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
کسی شخص کو ویکسینیشن کے بعد شدید الرجی ہوتی ہے تو اس حالت کو انفلیکسس کہتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ویکسین نہیں ہوتی بلکہ جسم میں کسی بھی دوا کے باعث الرجی ہونے پر اس طرح کی پریشانی دیکھی جاتی ہے۔ایسے حالات میں پھر ڈاکٹر اپنی کٹ میں ایک اور ٹیکا رکھتے ہیں تاکہ اس کے اثر کو فوری طور پر کم کیا جاسکے۔ لیکن بہت کم ہوتا ہے کہ اس کی ضرورت پڑے۔ایڈورس ایفیکٹ فالوؤنگ امیونائزیشن (منفی اثرات کے بعد احتیاط) کے لیے پہلے سے ہی پروٹوکول (طریقہ کار) طے ہے۔ اس کے لیے ویکسینیشن سنٹر میں ڈاکٹروں اور عملے کو ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ویکسین لگانے کے بعد ہر شخص سے کہا جاتا ہے کہ وہ 30 منٹ تک ویکسینیشن سینٹر میں انتظار کریں تاکہ کسی بھی طرح کے منفی اثرات پر نظر رکھی جاسکے۔ہر ویکسینیشن سینٹر میں اس کے لیے ایک کٹ تیار کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انفلیکسس کی حالت سے نمٹنے کے لیے کچھ انجیکشن، پانی چڑھانے والی ڈرپس اور دیگر چیزیں ضروری ہیں۔

ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ویکسین کو صحیح طریقے سے محفوظ رکھا جائے، ویکسین لگانے سے پہلے شخص کی طبی ہسٹری کے بارے میں مکمل معلومات لی جائے۔کسی دوا سے الرجی کی صورت میں حکومت کے قواعد کے مطابق اس شخص کو کورونا ویکسین نہیں دی جاسکتی۔ ساتھ ہی شخص کو ویکسین لگنے کے بعد ہونے والی دقتوں کے بارے میں بتایا جانا اہم ہے۔ویکسین لگانے سے پہلے شخص کی طبی تاریخ کے بارے میں مکمل معلومات لینا ضروری ہے

اگر ایڈورس ایفیکٹ کی وجہ سے کوئی شخص ہلاک ہو جاتا ہے تو اس کی جانچ ایک ڈاکٹروں کا پینل کرتا ہے۔اگر اس شخص کو سنگین کیس میں ویکسینیشن کے بعد ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا تو اس معاملے میں کنبے کی رضامندی کے ساتھ پوسٹ مارٹم ہونا ضروری ہے تاکہ موت کی وجہ کا پتا لگایا جاسکے۔اگر کنبہ اس کے لیے تیار نہیں تو بھی علیحدہ فارم کو پُر کرنے اور تفتیش کرنے کی ضرورت ہوگی۔
یہ ضروری ہے کہ کسین لگنے کے بعد ہونے والے دقتوں کے بارے میں بتایا جائے اگر ویکسینیشن کے بعد شدید منفی اثرات کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد موت ہوتی ہے تو ہدایات کے مطابق پورے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔
تفتیش کے ذریعے یہ قائم ہوگا کہ ایڈورس ایفیکٹ ویکسین میں استعمال ہونے والی دوا کی وجہ سے ہوا ہے یا ویکسین کے معیار میں کسی کمی کی وجہ سے، یا ویکسینیشن کے دوران کسی غلطی کی وجہ سے یا کسی اور قسم کے اتفاق کی وجہ سے۔

منفی اثرات کاجائزہ لینے کیلیے فی الحال جو طریقہ کار مرتب کیا گیا ہے وہ اب تک کے ٹرائل (آزمائشی) ڈیٹا پر مبنی ہے۔ اس طرح کا طریقہ عام طور پر طویل مدتی آزمائشی اعداد و شمار پر مبنی ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ہر ویکسین کے بعد صرف ایک قسم کا اثر دیکھا جائے۔ بعض اوقات علامات مختلف ہوتی ہیں۔یہ اس پر منحصر ہے کہ ویکسین بنانے کا طریقہ کیا ہے اور ویکسین لینے والے کے جسم کی قوت مدافعت کیسی ہے۔مثال کے طور پر بی سی جی ویکسین دینے کے بعد اس جگہ پر کبھی کبھار سوجن ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض بچوں کو ڈی پی ٹی ویکسین کے بعد ہلکا بخار ہوسکتا ہے۔ پولیو کے قطرے پینے کے بعد کوئی واضح منفی اثرات اب تک سامنے نہیں آئے۔اسی طرح کووی شیلڈ اور کوویکسین نامی کورونا کی ویکسینز کا منفی اثر بھی ایک جیسا نہیں۔انڈیا میں لگائی جانے والی ویکسین کے مضر اثرات کیا ہیں؟
کوویکسین کے ٹرائل کے دوران دیکھی جانے والی علامات یہ ہیں: درد، ٹیکے کے مقام پر سوجن، ہلکا بخار اور جسم میں درد جیسی معمولی دقتیں۔ ایسے لوگوں کی تعداد 10 فیصد تھی۔جبکہ 90 فیصد لوگوں میں کوئی منفی اثرات نہیں دیکھے گئے۔دوسری طرف کووی شیلڈ ویکسین میں ہلکا بخار اور الرجی کا رد عمل ظاہر ہوا تھا۔
اگرچہ ویکسین ہیزیٹنسی (ہچکچاہٹ) کا ایڈورس ایفیکٹ سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں لیکن ویکسین کے بارے میں ہچکچاہٹ کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ عام لوگوں میں ویکسین کے بارے میں صحیح معلومات کی کمی ہے۔اگر ویکسین کی سیفٹی یعنی حفاظت اور افادیت سے متعلق سوالات ہوں تب بھی لوگ ویکسین لینے سے ہچکچاتے ہیں۔اکثر لوگوں میں ویکسینیشن مہم کے آغاز سے یہ ہچکچاہٹ نظر آتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس ہچکچاہٹ میں کمی آ جاتی ہے۔
لیکن اگر ایڈورس ایفیکٹ میں کوئی سنگین بات سامنے آتی ہے تو پھر لوگ ویکسین لینے سے پرہیز کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ معمولی دقتیں معمول کا حصہ ہیں –
مختلف ممالک نے اس وقت کورونا کی نو ویکسینوں کو منظوری دے دی ہے- ان میں سے دو فائزر اور موڈرنا کی بنائی ہوئی ویکسینز، ایم آر این اے ویکسین ہیں۔ اس ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ویکسین انسانوں پر پہلی بار آزمائی جا رہی ہے۔باقی چار ویکسین وائرس کو غیر فعال کر کے بنائی جاتی ہیں، جن میں بھارت بائیوٹیک اور چین کی ویکسین شامل ہیں۔باقی دو ویکسین آکسفورڈ آسٹرا زینیکا (کووی شیلڈ) اور سپوتنک ہیں۔ انھیں ویکٹر ویکسین کہا جاتا ہے۔اب تک ایم آر این اے ویکسین کے علاوہ کسی بھی دوسری ویکسین کے استعمال میں کوئی سنگین مضر اثرات کی اطلاع نہیں ملی۔

کیٹاگری میں : صحت

اپنا تبصرہ بھیجیں