عاطف میاں کی طرفداری کرنے والے کا ایمان خطرے میں

عاطف میاں قادیانی نہیں ہے ، بلکہ مرتد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موصوف ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور پھر والدین سے لڑ کر قادیانیت کا بد مذہب قبول کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ ہوتا آیا ہے ، اس کی طرف سے قادیانیت کا تاریک و بدبو دار دائرہ اپنی منحوس گردن میں پہنتے ہی اسے یہودی اور عیسائی حلقوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ، اس کی عام سی توجیہات کو بھی یوں پیش کیا جیسے معاشیات کی دنیا تو بس اسی کے دم قدم سے آباد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شااید اس کی طرف داری کرنے والے دوست نہیں جانتے کہ ایک زندیق و مرتد کی شریعت کی رو سے کیا سزا ہے ، جناب والا اس کی طرف داری پر بھی آپ کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے ، وہ نہ صرف قابل گردن زدنی ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا بھی حرام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن جن نے اب تک عاطف میاں کی طرف داری کی ، میری ان سے گزاارش ہو گی کہ اگر واقعی خود کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں تو ابھی اور اسی وقت توبہ کرتے ہوئے اس کے حق میں کی گئی تمام پوسٹس اور کمنٹس ڈیلیٹ کر دیں ، اس کی مذمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں ۔

اگر کسی کو شک ہے کہ میں غلط کہہ رہا ہوں تو مجلس خدام احمدیہ امریکہ کے تحت شائع کی گئی کتاب ’’بائی دی ڈانز ارلی گلوری لائٹ‘‘ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں ، اس بات کا انکشاف خود عاطف میاں نے مجلس خدام احمدیہ امریکہ کےکتاب میں کیا ہے ۔ اس میں عاطف میاں نے والدین کی ناراضی کا ذکر کرنے کے علاوہ اسلام کے خلاف دشنام طرازی بھی کی ہے ۔ اس کتاب میں ان امریکیوں کی کہانیاں شائع کی گئیں جو ارتداد کے بعد قادیانی بنے یا جنہوں نے دوسرے مذاہب چھوڑ کر قادیانیت قبول کی۔
عاطف میاں کے مطابق وہ 1974 میں نائیجیریا میں پیدا ہوا اور پرورش پاکستان میں ہوئی ۔ اُس کے اپنے بقول :

” 3بہنوں کے بعد والدین کی پہلی نرینہ اولاد کی وجہ خوب لاڈ پیار ملا۔ والدین کے ایما پر امریکی تعلیمی اداروں میں داخلے کی درخواستیں بھیجیں ۔ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں داخلہ مل گیا اور میں 1993 میں امریکہ پہنچ گیا ۔ جہاں مجھے اپنے اسکول کے دنوں کا ایک دوست حامد شیخ مل گیا، میں اسے 8برس سے جانتا تھا لیکن یہ علم نہیں تھا کہ وہ ایک قادیانی ہے ، اُس نے مجھے قادیانیت کی جانب راغب کیا ۔اس کی فراہم کردہ کتب اور بتائے گئے ویب ایڈریسز سے میں نے قادیانیت کو جانا ۔2001 میں شکاگو یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر پہلی نوکری کا آغاز کیا ۔ بوسٹن میں قیام کے دوران میں نے مسلم علما کے پیچھے نماز سے بچنے کیلئے مساجد جانا چھوڑ دیا ۔ قادیانی عبادت گاہ دور تھی اور کار نہ ہونے کی وجہ سے میں وہاں نہ جاسکتا تھا ۔ شکاگو میں قیام کے دوران کار ملنے کے بعد وہاں مجھے قادیانی عبادت گاہ مل گئی جہاں میں نے جمعہ کے جمعہ جانا شروع کر دیا ۔ شکر ہے کہ میں نے ایک سچا مذہب پا لیا ورنہ گم راہی کی تاریکی میں بھٹکتا رہتا ۔ ”

عاطف میاں کے مطابق اس نے 2002 میں قادیانیت کا فارم بھر دیا اور مجلس خدام احمدیہ میں بھی کام کر رہا ہے ۔ وہ مرزا مسرور لعین کا مشیر برائے مالیات ہے اور مرزا غلام کے تجویز کردہ مالیاتی رفاہی نظام پر تحقیق کے بعد اسی نظام کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کر چکا ہے ، گویا اب پاکستان کے مسلمان ایک قادیانی نبوت کے جھوٹے دعویدار کا قائم کردہ نظام اپنائیں گے اور اس کے مطابق زندگی گزاریں گے اللہ نہ کرے ، اللہ نہ کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں