پروسٹیٹ،بڑی آنت،ہڈیاں،چھاتی،رحم،خون اور پھپھڑوں کےسرطان کی تشخیص اورعلاج

سرطان ایک ایسی مہلک بیماری ہے، جس میں جسم کےکسی بھی حصّےمیں خلیات کی غیرمعمولی، نقصان دہ اور بے ترتیب افزایش ہونے لگتی ہے،یہاں تک کہ یہ اضافی خلیے مہاسے، رسولی یا گلٹی جیسی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ سرطان بننے کی اہم وجہ خلیات میں موجود ڈی این اے ہے،جو قدرتی طور پر تبدیل ہوکر خلیات کو مسلسل اور غیرمعمولی طریقے سے تقسیم کرتا رہتا ہے۔ اس تبدیلی کو طبّی اصطلاح میں میوٹیشن (Mutation) کہتے ہیں۔ یعنی ایک سے دو، دو سے چار، چار سے آٹھ۔ اور اسی ترتیب سے مسلسل غیر ضروری خلیات کی افزیش کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ ڈی این اے میں اس تبدیلی کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ مثلاً تمباکو نوشی،الکحل، چھالیا، گٹکے کا استعمال، بہت زیادہ دھوپ میں رہنا،تیز گرم چائے یا قہوہ پینا، کینڈ فوڈز یا فروزن فوڈز اور کیمیکل مِلی اشیاء یعنی Preservatives کا استعمال وغیرہ۔عمومی طور پر مدافعتی نظام ایک مربوط طریقے سےجسم میں داخل ہونے والے جراثیم ختم کردیتا ہے،لیکن سرطان کے خلیات جسم کے اپنے ہی خلیوں سے مل کربنتے ہیں،اسی لیے امیون سسٹم ان خلیات کو پہچان نہیں پاتا اور یوں وہ جسم میں نشوونما پانےلگتےہیں۔سرطان کسی بھی عُمر کے فرد کو لاحق ہوسکتا ہے۔ اس کی عام علامات میں رسولی بننا، درد اوروزن مییں کمی وغیرہ شامل ہیں،جب کہ یہ جسم کے جس حصّے میں ظاہرہو،اُس عضو سے متعلقہ علامات بھی ظاہرکرتا ہے۔ مثلاً اگرکھانے کی نالی کا سرطان ہوتو کچھ بھی کھانےپینے کی صُورت میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ اِسی طرح پھیپھڑوں کے سرطان میں کھانسی یا سانس لینے میں تکلیف ، خون کے سرطان میں جسم پر نیل یا دھبّےپڑنا یا کسی جگہ سے غیرمعمولی خون خارج ہونا، تھکن اور بخاروغیرہ شامل ہیں۔

سرطان کو دو اقسام میں منقسم کیا جاتاہے۔ ایک قسم بینائن (Benign) اور دوسری میلیگنینٹ (Malignant) کہلاتی ہے۔ بینائن سرطان کی افزایش ایک خاص مدّت کے بعد رُک جاتی ہے اور یہ جسم کے دیگر حصّوں تک نہیں پھیلتا۔البتہ بعض بینائن سرطان بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔مثلاًSchwannoma یعنی نسوں کا سرطان۔ میلیگنینٹ ٹیومرزخطرناک ہونے کے ساتھ مسلسل بڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔یہ جسم کےکسی بھی حصّےمیں پھیل سکتے ہیں۔ سرطان کے ایک سے دوسری جگہ پھیلنے کے عمل کو طبّی اصطلاح میں میٹاسٹیسس (Metastasis) کہتے ہیں۔ یہ یونانی لفظ ہے،جس کا مطلب ہجرت کرنا ہے۔ سرطان جسم کے جس حصّےمیں نشوونما پاتا ہے، اُسے پرائمری ٹیومر (Primary Tumor) سے موسوم کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر بریسٹ کینسر اپنی جگہ سے جسم کے کسی بھی حصّے میں داخل ہوجائے،مگرپرائمری ٹیومر وہی کہلائے گا، جہاں سے پھیلا ہو۔جسم میں سرطان پھیلنے کے کئی ذرائع ہوسکتے ہیں۔جیسے ایک بنیادی ذریعہ شریانیں ہیں۔ خواہ وہ صاف خون کی شریانیں ہوں، جن میں “Oxgyenated” خون پایا جاتا ہے یا پھر گندے خون کی شریانیں جن میں “Deoxygenated” خون ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اگر بڑی آنت کا سرطان لاحق ہوتو یہ سب سے پہلے جگر میں پھیلتاہے، کیوں کہ اس آنت میں سے ایک خون کی نالی، جگر کی خون کی نالی میں نکاس کرتی ہے،جس کے ذریعے سرطان جگر تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔سرطان پھیلنے کا ایک اور ذریعہ لمفاٹکس (Lymphatics) ہیں۔ لمفاٹکس دراصل جسم کی وہ نالیاں ہیں، جن میں پانی جیسا مواد پایا جاتا ہے، جسے لمف (Lymph) بھی کہتے ہیں۔ان لمفس کا کام جسم کی پروٹین اور اُس مواد کو جو خلیات کے درمیان پایا جائے، خون کی نالیوں تک پہنچانا ہے۔یہ لمفس جسم میں موجود غدود سے ہوکرخون میں شامل ہوتے ہیں اور ان غدود کو لمف نوڈ (Lymph Node) کہا جاتا ہے۔ یہ غدود جسم میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پائے جاتے ہیں اور ایک سپاہی کا کام انجام دیتے ہیں۔یعنی اگر لمف میں کوئی جراثیم موجود ہو، تو ان غدود میں موجود وائٹ بلڈ سیلز انہیں ہلاک کرنے میں مددگارثابت ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ سرطان جسم کے جس بھی حصّے میں ظاہر ہو ،سب سے پہلے وہاں کے غدود کا حجم بڑھنے لگتا ہے،جو بڑھتے بڑھتے ایک گلٹی جیسی شکل اختیار کرلیتاہے۔ چوں کہ سرطان کے خلیات، لمفاٹکس کے ذریعے جسم میں پھیلنا شروع ہوتے ہیں،چناںچہ جب یہ غدود میں داخل ہوتے ہیں،تو وہاں بھی ان کی افزیش شروع ہوجاتی ہے اور اسے بھی ایک گلٹی جیسی شکل دے دیتے ہیں۔ سرطان کے پھیلاؤ کا تیسرا ذریعہ یہ ہوسکتا ہے کہ سرطان خودحجم میں بڑھتے بڑھتے اس حد تک پھیل جائے کہ دوسرے عضو میں داخل ہوکر اُسے بھی متاثرکردے۔ جیسا کہ پتّے کا سرطان بڑھتے بڑھتے جگر میں داخل ہوکر اسے بھی متاثر کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ سرطان کے خلیات، رگوں کے ذریعے (Perineural Invasion) بھی جسم میں پھیل سکتے ہیں۔
کسی بھی طرح کےسرطان کی حتمی تشخیص کے لیے بائیوآپسی ناگزیر ہے۔بائیوآپسی کے کئی طریقے مستعمل ہیں ۔ایک طریقۂ کارمیں متاثرہ جگہ کو سُن کرکے چھوٹا سا ٹشونکال کر مائیکرو اسکوپ کے ذریعےجانچا جاتا ہے ۔ یہ عمل پندرہ سے بیس منٹ میںمکمل ہوجاتا ہے اورمریض کو ہسپتال میں داخل کروانے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی۔بعض اوقات سرطان کے نزدیک موجود غدود میں ایک چیرا لگا کے پوری گلٹی نکال کر جانچ لی جاتی ہے۔ اس طریقۂ کار کو Excisional Biopsyکہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ پنچ آئوٹ (Punch Out) ہے،جو ایک خاص قسم کی سوئی ٹرو کٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔پنچ آؤٹ بائیوآپسی میں بھی ٹشو کا ایک چھوٹا سا حصّہ نکالا جاتا ہے۔اس طرح کی بائیوآپسی لوکل اینستھیزیا کے ذریعے ہسپتال میں داخل کیے بغیر بھی کی جاسکتی ہے اور ہسپتال میں داخل ہوکربھی ۔اور بعض اوقات مریض کو مکمل بے ہوش کرنے کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔تاہم، یہ فیصلہ ایک سرجن ہی کرسکتا ہے کہ مریض کے لیے کیا بہتر رہے گا۔اگر سرطان کھانے کی نالی ، میدے یا آنتوں کا ہوتو اینڈواسکوپی کے ذریعے بائیوآپسی کی جاتی ہے۔اسی طرح فائن نیڈل اسپیرشن سائٹولوجی (Fine needle aspiration cytology) میں متاثرہ جگہ پر باریک سوئی ڈال کر اندر سے مواد نکالاجاتا ہے، جو عموماً تھائی رائیڈ کے کینسر میں مستعمل ہے۔
ہر طرح کی بائیوآپسی سے لیے گئے ٹشو کی مدد سے عموماًپیتھالوجسٹس یہ جانچتے ہیں کہ سرطان کی قسم(بینائن ہے یامیلیگنینٹ) ، نوعیت اوراصل مقام کیا ہے اور یہ جسم میں کہاں تک پھیل چُکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بائیوآپسی رپورٹ مرتّب ہونے میں سات سے بارہ دِن لگتے ہیں۔ بائیوآپسی کے ذریعے اس بات کی بھی حتمی تشخیص ہوجاتی ہے کہ آیا یہ سرطان ہی ہے یا کوئی بینائن ٹیومر۔آنکولوجسٹس بائیوآپسی کی رپورٹ کےبعد ہی علاج کا طریقۂ کار تجویز کرتے ہیں کہ آیامریض کا علاج سرجری، کیموتھراپی یا پھرشعاؤں کے ذریعےکیا جائےیا پھردونوں طریقےاپنائے جائیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ سرطان کےعلاج میں بائیوآپسی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ تصوّر عام ہے کہ بائیوآپسی کے بعد سرطان تیزی سے جسم میں پھیل جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرطان کے خلیات بہت ڈھیلے طریقے سےآپس میں جڑے ہوتے ہیں،جو ذرا سا بھی چھیڑنےپر پھیل سکتے ہیں، لیکن اس کے امکانات بہت ہی کم پائے جاتے ہیں،کیوں کہ محققین کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کی بدولت بائیوآپسی میں سرطان پھیلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 2014ء میں راجہ راجیشوری ڈینٹل کالج اینڈ ہسپتال،بھارت کےمحققین نے بائیوآپسی کے ذریعے پھیلنے والے کینسر سیل بوائی(seeding) سے متعلق 1983ء تا 2012ء تک کے کیسز پر تحقیق کے بعدیہ نتیجہ اخذ کیا کہ بائیوآپسی کے ذریعے سرطان پھیلنے کاخطرہ دو عوامل پر منحصر ہوتاہے۔پہلا یہ کہ سرطان کی چند بہت ہی خاص اقسام میں پھیلنے کا امکان پایا جاتا ہےاور دوسرابائیوآپسی کے طریقے پر منحصرہے۔بہرحال،زیادہ تر کیسز میںسرطان کی علامات جسم میں پھیلنے کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہیں۔ بعض اوقات بائیوآپسی کروانے کے بعد رپورٹ کے ذریعےپتا چلتا ہے کہ کینسر اُس جگہ کا نہیں ، جہاں کا ٹشو لیا گیا تھا، بلکہ یہ جسم کے کسی اور عضو سے پھیل کر یہاں تک آیا ہے۔ہمارے یہاں اکثر مریض بائیوآپسی کروانے میں اس قدرتاخیر کردیتے ہیں کہ اس دوران سرطان پورے جسم میں پھیل جاتا ہے اور جب بائیوآپسی کروائی جاتی ہے، تب تک جسم کے دوسرے حصّوں میں علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔تب یہی سمجھا جاتا ہے کہ بائیوآپسی کے بعد سرطان پھیلا ہے۔دُنیا بَھرمیں کی جانے والی تحقیقات میں یہ ثابت ہوچُکاہےکہ سرطان، بائیوآپسی کے ذریعےہرگزنہیں پھیلتا ۔ جانس ہاپکنز ہسپتال میں پیتھالوجی، یورو لوجی اور انکولوجی کے پروفیسر اور سرجیکل پیتھالوجی کے ڈائریکٹر ،ڈاکٹر جوناتھن ایپ اسٹائن کے مطابق سرطان کی اکثر اقسام میں بائیوآپسی کسی بھی طرح پھیلائو کا سبب نہیں بنتی ۔ جنوری 2015ء میں، جیکسن ولی، فلوریڈا کے محققین کی ایک تحقیق کے مطابق جن مریضوں کی بائیوآپسی کی گئی، اُن کے علاج سے بہتر نتائج حاصل ہوئے اور وہ طویل عرصے تک زندہ رہے ،بہ نسبت ان مریضوں کے، جن کی بائیوآپسی نہیں ہوئی تھی۔ چناں چہ یہ کہنا غلط ہےکہ بائیوآپسی کروانےسے سرطان پھیل سکتا ہے۔
دُنیا بَھرکے تمام ڈاکٹرز کے لیے بائیوآپسی کے بغیر سرطان کے مریض کا علاج کرنا خاصا مشکل ہوتاہے،مگر افسوس کہ زیادہ تر افرادیہ بات نہیں سمجھتے ۔یاد رکھیے، یہ سوچنے میں ضایع کیا جاتا ہے کہ آیا بائیوآپسی کروائی جائے یا نہیں، سرطان کو بڑھنے کے لیے اتنا ہی موقع مل جاتا ہے۔ علاوہ ازیں،سرطان کے علاج میں بھی تاخیر نہ جائے ،کیوں کہ سرطان مسلسل بڑھتا رہتا ہے اور جتنا زیادہ بڑھے گا، اُتنا ہی اس کا علاج مشکل ہو جائے گا،لہٰذا اگر معالج کی ہدایت کے مطابق بروقت بائیوآپسی کروالی جائے، تو علاج جلد شروع ہونے کے نتیجے میں مرض سے مکمل نجات بھی مل سکتی ہےکہ سرطان لاعلاج مرض نہیں ،بشرطیکہ بروقت تشخیص ہوجائے۔
کینسر اصل میں ہمارے جنیاتی مادے میں تبدیلی کا نام ہے، ہمارے جسم میں خلیے تقسیم ہوتے رہتے ہیں، اِن خلیوں کی تقسیم ایک خودکار نظام کے تحت ہر دم مانیٹر ہوتی ہے تاکہ یہ تقسیم درست طریقے سے ہوتی رہے، کسی وجہ سے اگر یہ خودکار نظام کام کرنا چھوڑ دے تو خلیے بہت تیزی سے تقسیم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور انہیں کنٹرول کرنا ممکن نہیں رہتا، اس صورتحال کو کینسر کہتے ہیں۔
کینسر کی وہ ابتدائی علامات جو اس موذی مرض کی مختلف اقسام میں عام طور پر سامنے آتی ہیں۔
جلد میں تبدیلیاں
جلد پر کوئی نیا نشان یا اس کے حجم، ساخت یا رنگت میں تبدیلی جلد کے کینسر کی علامت ہوسکتی ہے، ایک اور علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ نشان جسم کے دیگر نشانوں سے بالکل مختلف ہو، اگر ایسا کوئی غیر معمولی نشان نظر آئے تو ڈاکٹر سے چیک اپ کروالیں۔
ہر وقت کھانسی
اگر آپ تمباکو نوشی نہیں کرتے تو اس بات کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں کہ مسلسل کھانسی کینسر کی علامت ہوسکتی ہے، اکثر یہ دمہ، معدے میں تیزابیت یا کسی انفیکشن کا نتیجہ ہوسکتی ہے، تاہم اگر یہ چند دنوں میں ختم نہیں ہوتی یا کھانسی کے ساتھ خون آنے لگتا ہے خصوصاً اگر آپ تمباکو نوشی کرتے ہیں، تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
چھاتی میں تبدیلیاں
چھاتی کا سرطان خواتین میں بہت زیادہ عام ہے، تاہم اکثر چھاتی میں آنے والی تبدیلیاں کینسر کی نشانی نہیں ہوتیں، مگر پھر بھی ضروری ہے کہ ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے اور چیک اپ کرایا جائے، کوئی بھی گلٹی، سرخی، درد یا دیگر تبدیلیاں فکر کا باعث ہوسکتی ہیں۔
پیٹ پھولنا
اگر تو پیٹ پھول جاتا ہے یا گیس کی شکایت ہے تو یہ غذا یا تناﺅ کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے، تاہم اگر اس میں بہتری نہیں آتی یا آپ کو تھکاوٹ، وزن میں کمی یا کمردرد کی شکایت بھی لاحق ہوجائے تو اس کا معائنہ کرانا چاہیے، خصوصاً خواتین کو کیونکہ یہ کینسر کی علامت ہوسکتی ہے۔
پیشاب کے دوران مسائل
عمر بڑھنے کے ساتھ بیشتر مردوں کو پیشاب کے دوران مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، جیسے بہت زیادہ واش روم کے چکر لگانا، کپڑوں میں نکل جانا یا دیگر، عام طور پر یہ مثانے کی خرابی ہوتا ہے مگر یہ مثانے کا کینسر بھی ہوسکتا ہے جو ڈاکٹر ہی ٹیسٹ کے بعد بتا سکتے ہیں۔
لمفی نوڈز کا سوجنا
یہ چھوٹے بیج کی شکل کے گلینڈ گردن، بغلوں اور جسم کے مختلف حصوں میں ہوتے ہیں، جب وہ سوجن کا شکار ہوں تو اس کی وجہ اکثر نزلہ زکام یا گلے کی تکلیف جیسے انفیکشن کا سامنا ہوتا ہے، مگر مختلف اقسام کے کینسر جیسے لیوکیمیا اور لمفائی بافتوں کے کینسر بھی اس سوجن کا باعث بنتے ہیں، اس حوالے سے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔
ٹوائلٹ استعمال کرتے ہوئے خون آنا
واش روم میں فضلے کے اخراج کے دوران خون نظر آئے تو اچھا خیال تو یہی ہے کہ ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے، جو کسی اور مرض کی علامت بھی ہوسکتا ہے مگر آنتوں کے کینسر کا امکان بھی ہوتا ہے، پیشاب میں خون آنا پیشاب کی نالی کے انفیکشن کا مسئلہ بھی ہوسکتا ہے تاہم یہ گردے یا مثانے کے کینسر کی علامت بھی ہے۔
چیزیں نگلنے میں مشکل
نزلہ زکام، معدے میں تیزابیت یا ادویات کے استعمال کے نتیجے میں چیزیں نگلنا مشکل ہوجاتا ہے، مگر صورتحال وقت کے ساتھ یا ادویات کے استعمال سے بہتر نہیں ہوتی تو ڈاکٹر سے رجوع کیا جانا چاہیے، چیزیں نگلنے میں مشکل گلے کے کینسر کی علامت ہوسکتی ہے یا یہ منہ اور معدے کے درمیان نالی کا سرطان بھی ہوسکتا ہے۔
منہ میں چھالے یا درد
منہ میں چھالے اگر ٹھیک ہوجائیں تو پریشانی کی بات نہیں اور نہ ہی دانت کا درد قابل فکر ہوتا ہے، مگر جب یہ چھالے ٹھیک نہ ہو یا درد جم کر رہ جائے، مسوڑوں یا زبان پر سفید یا سرخ نشانات بن جائے یا جبڑوں کے قریب سوجن یا بے حسی محسوس ہو تو یہ منہ کے کینسر کی علامات ہوسکتی ہیں، خاص طور پر جو مرد سیگریٹ نوشی یا تمباکو استعمال کرتے ہیں ان میں اس کینسر کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، ان علامات کی صورت میں ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنا چاہیے۔
جسمانی وزن میں کمی
یقیناً ہر کوئی جسمانی وزن میں کمی کا خواہش مند ہوتا ہے جس کے لیے غذا یا ورزش کو ترجیح جاتی ہے، مگر جب ایسا بغیر کسی کوشش اور وجہ کے ہونے لگے خاص طور پر اگر 10 پونڈ وزن کم ہوجائے تو یہ عام سی چیز نہیں، ایسے امکانات ہیں کہ یہ لبلبے، معدے یا پھیپھڑے کے کینسر کی پہلی علامت ہوسکتی ہے۔
اکثر بخار یا انفیکشن کا شکار رہنا
اگر آپ صحت مند ہیں مگر پھر بھی اکثر بخار رہتا ہے تو یہ خون کے کینسر کی ابتدائی علامت ہوسکتا ہے، اس کینسر کی ابتدا میں جسم میں خون کے سفید خلیات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں جسم کی انفیکشن کے خلاف لڑنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
سینے میں جلن یا بدہضمی
لگ بھگ ہر ایک کو ہی سینے میں جلن یا بدہضمی کا سامنا ہوتا ہے جو عام طور پر غذا یا تناﺅ کا نتیجہ ہوتا ہے، تاہم طرز زندگی میں تبدیلیوں کے باوجود یہ مسائل سامنے آتے رہے رہیں تو ڈاکٹر سے رجوع کریں کیونکہ یہ معدے کے کینسر کی ایک علامت بھی ہوتی ہے۔
مسلسل تھکاوٹ
ہر ایک کو جسمانی توانائی میں کمی کا کبھی نہ کبھی سامنا ہوتا ہے تاہم اگر ایسا ایک ماہ تک روزانہ ہو، سانس گھٹنے لگے جو پہلے کبھی نہ ہو تو یہ خطرے کی گھنٹی ہوسکتا ہے، خون کا کینسر ہر وقت تھکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے، اکثر کینسر نہیں بھی ہوتا مگر ڈاکٹر سے معائنہ کروا لینا چاہیے کیونکہ کسی اور مرض کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔
بہت زیادہ خارش
اگر آپ کے جسم میں ہر وقت خارش کے نتیجے میں دانے ابھرتے رہتے ہیں، خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں عام طور پر نہیں ہوتے جیسے ہاتھ یا انگلیاں وغیرہ تو ڈاکٹر سے رجوع کریں، عام طور پر یہ علامت بھی خون کے کینسر کا خطرہ ظاہر کرتی ہے۔
معدے میں درد یا متلی
اگر آپ کے معدے میں مسلسل درد رہتا ہے یا ہر وقت متلی کا احساس ہوتا ہے تو یہ غذائی نالی کے کینسر کی علامت ہوسکتی ہے، مگر خون اور لبلبے کے کینسر کی صورت میں بھی یہ علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
گلے میں گلٹی
چھاتی سے اوپر گلے میں اچانک گلٹی کا ابھر آنا پھیپھڑوں، حلق، تھائی رائیڈ اور بریسٹ کینسر کی نشانی ہوسکتا ہے، ویسے تو ضروری نہیں کہ یہ کینسر کی ہی علامت ہو تاہم اگر تمباکو نوشی کے عادی ہیں تو پھر ضرور ڈاکٹرسے اس کا معائنہ کرالینا چاہیے۔
جلد کی رنگت زرد پڑجانا
یرقان ایسا مرض ہے جس کے دوران جلد اور آنکھیں زرد ہوجاتی ہیں، مگر کبھی کبھار یہ لبلبے کے کینسر کی علامت میں سے ایک ہوتی ہے، جلد کی رنگت زرد ہوجانا پتے اور جگر کے کینسر کی بھی علامت ہوسکتی ہے۔
بولنے میں مشکل
منہ اور دماغ کے کینسر کے نتیجے میں بولنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے ، لوگوں میں بنیادی دماغی افعال جیسے بولنے اور زبان ہلانے میں بھی مسائل سامنے آتے ہیں، منہ کے کینسر میں ہونٹوں، مسوڑوں، زبان اور حلق کے باعث بولنے میں مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔
ناخنوں میں گہرے رنگ کی لکیر
ہاتھوں یا پیروں کے ناخنوں میں اگر اچانک سیاہ یا بھورے رنگ کی لکیر ابھر آئے تو یہ جلد کے کینسر کی علامت ہوسکتی ہے۔
پیشاب کرتے ہوئے درد یا جلن کا احساس
پیشاب کرتے ہوئے درد یا جلن کا احساس مثانے کے کینسر کی علامت ہوسکتی ہے، ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ اگر بتدریج یہ تبدیلی آئے تو فکر کی بات نہیں، مگر ایسا اچانک ہو تو پھر ضرور ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
کھانے کی خواہش ختم ہوجانا
اگر آپ کے اندر اچانک کھانے کے لیے رغبت ختم ہوجائے اور معمول سے کم کھانے لگے تو یہ مختلف اقسام کے کینسر کی علامت ہوسکتی ہے جیسے معدے، لبلبے، آنتوں اور مادر رحم وغیرہ، جس کے دوران معدے پر دباﺅ بڑھ جاتا ہے اور کم کھانے پر ہی پیٹ بھرنے کا احساس ہونے لگتا ہے۔
زبان سفید ہوجانا
زبان پر اگر سفید نشان ابھر آئے تو یہ منہ کے کینسر سے قبل کی علامت ہے جس کا علاج نہ کرانے پر کینسر ہوسکتا ہے، تمباکو نوشی کے نتیجے میں اکثر اس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
کینسر کے مریض یہ احتیاط ضرور کریں
کینسر سے متاثرہ افراد اگر طبی علاج کے ساتھ کوئی اضافی ٹوٹکے بھی آزما رہے ہوں تو اپنے ڈاکٹر کو ضرور بتائیں، کیوںکہ کئی چیزوں کا استعمال علاج میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔مثال کے طور پر، بریسٹ کینسر کے مریضوں میں جلد کے گھاؤ بھرنے کا عمل ادرک، لہسن اور جنکو بلوبا کی گولیاں کھانے سے سست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔لسبن کے چیمپالیمو کینسر سینٹر میں سرجن پروفیسر ماریہ جواؤ کارڈوسا کہتی ہیں کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ جڑی بوٹیوں کے نسخے یا کریمیں کینسر کے علاج میں مدد کرتی ہیں۔ اور اگر ان کے استعمال پر ذرا بھی شک ہو تو بہتر ہے کہ انھیں استعمال نہ کیا جائے۔ڈاکٹروں کو اپنے مریضوں سے یہ ضرور معلوم کرنا چاہیے کہ کیا وہ کینسر کے علاج کے ساتھ اور کوئی نسخے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ان کے بقول یہ بہت ضروری ہے کہ کینسر کے مریض کوئی بھی اضافی نسخہ استعمال کرنے سے پہلے اپنے ڈاکٹر کو بتائیں۔ خاص طور پر اگر کینسر جلد میں پھیلنے لگا ہو۔ انھوں نے بتایا کہ ایسا بریسٹ کینسر کے معاملے میں زیادہ ہوتا ہے۔ان نسخوں کو استعمال کرنے کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ہارمون تھیراپی یا کیموتھیراپی جیسے علاج میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ ان میں سے چند عناصر خون جمنے کے عمل کو سست کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے زخم کو بھرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔
پروفیسر کارڈوسو کے مطابق مندرجہ ذیل وہ اشیا ہیں جن کا استعمال خون جمنے کے عمل کو سست کر دیتی ہیں:
چرائتا—فیورفیو-ادرک-لہسن-جنکو بلوبا-جنسینگ-ہاتھورن-شاہ بلوط-ہلدی
پروفیسر کارڈوسو نے کہا کہ اس میں حیرانی کی بات نہیں کی مریض اور ان کے رشتہ دار اضافی علاج کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ انھیں کچھ ایسا چاہیے ہوتا ہے جو صورت حال میں بہتری لا سکے۔ لیکن انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ وہ خود کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ادویات کا آخر کار سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مریض کو ’کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘
برطانوی فلاحی ادارے کینسر ریسرچ یوکے کی ویب سائٹ کے مطابق کہ چند اضافی نسخوں کی وجہ سے روایتی علاج متاثر ہو سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ کینسر کے علاج کے ساتھ تھوڑا پرہیز بھی ضروری ہے، مثال کے طور پر چکوترے اور سنترے کا جوس نہ استعمال کریں کیونکہ یہ انسانی جسم میں کینسر کی ادویات کے اثر کو نقصان پہنچاتا ہے۔کینسر ریسرچ یوکے کا کہنا ہے کہ ’اپنے ڈاکٹر کو ان اضافی نسخوں کے بارے میں ضرور بتائیں جنھیں آپ علاج کے ساتھ استعمال کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ انھیں استعمال سے پہلے مطلع کریں۔ خاص طور پر اگر آپ کا علاج درمیانی مرحلے میں ہو۔‘
بریسٹ کینسر ناؤ نامی فلاحی ادارے کے لیے کام کرنے والی نرس گریٹے براؤٹین سمتھ کا کہنا ہے کہ ’اس بارے میں انٹرنیٹ پر بہت ساری غیر تصدیق شدہ معلومات موجود ہیں۔ ڈاکٹروں سے مشورہ کرنا اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ مریض کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے تمام ضروری معلومات موجود ہیں۔ایڈوانسڈ بریسٹ کینسر کی پانچویں بین الاقوامی کانفرنس کے دوران پروفیسر کارسوڈو نے کہا کہ یہ ضرور ہے کہ یوگا، مائنڈ فلنس، ریکی اور آکو پنکچر جیسی تھیراپیوں سے کینسر کے مریض کے معیار زندگی پر مثبت اثر ہو سکتا ہے۔

کینسر اسکریننگ
امریکن کینسر سوسائٹی کی سفارشات ہیں کہ کینسر اسکریننگ اکثر کرانا اس کے پھیلنے سے اسے پکڑنے میں مدد دے سکتا ہے، خصوصاً خواتین کے لیے یہ ضروری ہے کیونکہ بریسٹ کینسر بہت عام ہے اور اس کی اسکریننگ اب کافی عام ہے جس سے اس مرض سے بچنا ممکن ہے۔

پروسٹیٹ کینسر
پروسٹیٹ ایک ایسا غدود ہے جو صرف مردوں میں ہوتا ہے۔ یہ اخروٹ کے برابر ہوتا ہے اور مثانے کی گردن کے نیچے، مثانے سے باہر نکلنے کے راستے کے ارد گرد یعنی پیشاب کی نالی کے گرد ہوتا ہے۔ پروسٹیٹ ایک دودھیا مائع بناتا ہے جو منی کا حصہ ہوتا ہے اور نطفے کوغذا فراہم کرتا ہے۔جیسے مردوں کی عمربڑھتی جاتی ہے پروسٹیٹ کے غدود بھی بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ یہ کئی برسوں میں ہوتا ہے اور کچھ مردوں میں یہ مثانے کےمسائل پیداکرسکتا ہے۔مثانے کا خراب کنٹرول صحت کےدوسرے مسائل کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ مثانے کا خراب کنٹرول رکھنے والے لوگ اس مشکل سے پریشان اور شرمندہ ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کے مثانے کے کنٹرول میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں یا آپ اپنے پروسٹیٹ غدود کی وجہ سے متفکر ہیں تو اپنے ڈاکٹر یا کانٹی نینس ایڈوائیزر سے بات کریں۔
پروسٹیٹ کی کچھ عام مشکلات کیا ہیں؟
پروسٹیٹائی ٹس میں مثانے کےانفیکشن کی وجہ سے پروسٹیٹ کے غدود میں سوجن اور درد ہوتا ہے۔ یہ جوان مردوں میں عام ہے۔
بینائن پروسٹیٹک ہائپرپلاسیا (BPH) اس وقت ہوتا ہے جب پروسٹیٹ آہستہ آہستہ بڑا ہونے لگتا ہے اور یہ عام طور پرادھیڑعمرمیں شروع ہوتا ہے۔ چار میں سے ایک شخص کو اس مسئلے کیلئے آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ (BPH کینسر کا پیش خیمہ نہیں ہے)۔
پروسٹیٹ کینسر عام طور پر کسی قسم کی علامات کے بغیر ہوتا ہے۔ آپکا ڈاکٹر اسے خون کے ایک ٹیسٹ (PSA کہلانے والے) اور پروسٹیٹ کےایک چیک کے ذریعے معلوم کر سکتا ہے۔ یہ مردوں میں سب سے عام کینسر ہے اور یہ آپکو بڑھتی ہوئی عمرکے ساتھ ہوسکتا ہے۔ البتہ یہ سب سے آسانی سے علاج کیا جانے والا کینسر ہے۔

پراسٹیٹ کینسر کی تشخیص کیسے ہو سکتی ہے؟
زیادہ تر مرد اپنے جی پی سے اس کا آغاز کرتے ہیں۔ وہ آپ کا معائنہ کریں گے اور آپ کی عمومی صحت کے
بارے میں پوچھیں گے۔ جی پی ڈیجیٹل ریکٹل ایگزامینیشن )ڈی آر ای( اور خون کے پی ایس اے ٹیسٹ کروائے گا۔
ڈیجیٹل ریکٹل ایگزامینیشن
ریکٹم (پیچھے واال راستہ) پراسٹیٹ غدود سے قریب ہوتا ہے۔ آپ کا ڈاکٹر دستانہ لگی انگلی ریکٹم میں ڈال
کرپراسٹیٹ میں پائی جانے والی تمام بے قاعدگیوں کو محسوس کر سکتا ہے۔ اس سے بے آرامی ہو سکتی ہے، مگر
درد نہیں ہوتا۔
خون کے پی ایس اے ٹیسٹ
پی ایس اے (پروسٹیٹ سپیسیفک اینٹیجن) کا معائنہ کرنے کے لیے خون کا ایک نمونہ لیا جاتا ہے۔ پی ایس اے ایک
پروٹین ہوتی ہے جو پراسٹیٹ پیدا کرتا ہے اور اس کی تھوڑی سی مقدار کا ہونا معمول کی بات ہے۔ پراسٹیٹ کے
کینسر کے حامل مردوں کے خون میں پی ایس اے کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ تاہم، پی ایس اے ٹیسٹ ہمیشہ قابل
بھروسہ نہیں ہوتا۔ بعض مردوں میں پراسٹیٹ کینسر کے باوجود پی ایس اے معمول کے مطابق ہوتا ہے، جبکہ بعض
مردوں میں پی ایس اے کی مقدار زیادہ ہونے کے باوجود انہیں پراسٹیٹ کینسر نہیں ہوتا۔
پی ایس اے کی سطح درج ذیل کی وجہ سے بھی بلند ہو سکتی ہے:
 پیشاب کی انفیکشن
 پراسٹیٹ کی انفیکشن (پروسٹائیٹس)
 پراسٹیٹ کی حالیہ بیاپسی
 پیشاب کے لیے کیتھیٹر (پیشاب نکالنے کے لیے ایک نلکی)لگانا
 پراسٹیٹ یا مثانہ کی سرجری
 پراسٹیٹ کا پیغام۔
مردوں کی عمر میں اضافے کے ساتھ ان کے پی ایس اے کی سطح بھی بلند ہوسکتی ہے۔
پراسٹیٹ کینسر کی وجہ سے بھی پی ایس اے کی سطح معمول سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ معمول سے زیادہ پی ایس
اے کی سطح کے حامل مردوں کو عام طور پر مزید ٹیسٹوں کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
ہسپتال میں
اگر آپ کو مزید ٹیسٹوں کی ضرورت ہوئی، تو آپ کو آپ کے مقامی ہسپتال میں موجود یورالوجی ڈیپارٹمنٹ کے
کسی ڈاکٹر یا نرس کے پاس بھیجا جائے گا۔
درج ذیل ٹیسٹوں سے پراسٹیٹ کینسر کی تشخیص میں مدد مل سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ تمام ٹیسٹ نہ
کروانے پڑیں۔ ڈاکٹر آپ کے لیے ضروری ٹیسٹوں کی وضاحت کریں گے۔
ٔو ٹرانس ریکٹل نڈ اسک
الٹرا سا ین (ٹی آر یو ایس)
اس میں پراسٹیٹ کی تصویر بنانے کے لیے آواز کی لہریں استعمال کی جاتی ہیں۔ پراسٹیٹ گلینڈ کو اسکین کرنے
کے لیے، ایک چھوٹی سی سالئی پیچھے والے راستے میں داخل کی جاتی ہے۔ اسکین غیر آرام دہ ہو سکتا ہے، مگر
اس پر صرف چند منٹ ہی لگتے ہیں۔
بیاپسی
خوردبین کے نیچے معائنہ کرنے کے لیے، پراسٹیٹ کی بافت (بیاپسی) کے کئی نمونے حاصل کیے جاتے ہیں۔
بیاپسی عام طور پر پچھلے راستے (ریکٹم) کی دیوار کے ساتھ ایک سوئی ڈال کر کی جاتی ہے۔ اسے ٹرس بیاپسی
ٔکہا جاتا ہے۔ عام طور پر، بیاپسی اور الٹرا ساونڈ ایک ہی وقت میں کیے جاتے ہیں۔
بعض اوقات بیاپسی خصیوں کے پیچھے (پیرینیئم) جلد سے لی جاتی ہے۔ اسے ٹرانس پیرینیئل بیاپسی کہا جاتا ہے۔
بیاپسی کروانا اکثر بے آرام کر سکتا ہے، مگر اس میں عام طور پر درد محسوس نہیں ہوتا۔ بے آرامی میں کمی لالنے
کے لیے، آپ کی مطلوبہ جگہ کو سُن بھی کیا جا سکتا ہے۔ انفیکشن کے خطرے میں کمی لالنے کے لیے اینٹی
بائیوٹک ادویات دی جاتی ہیں۔
بدقسمتی سے، پراسٹیٹ میں کینسر موجود ہونے کے باوجود، ہو سکتا ہے کہ بیاپسی میں نظر نہ آئے۔ ایسا تقریبا 10-
20 مردوں )5–10 )%میں سے 1 مرد میں ہوتا ہے۔ بیاپسی نیگیٹو ہونے کی صورت میں، ہو سکتا ہے کہ بیاپسی
میں نظر نہ آ سکنے والے کینسر کو دیکھنے کے لیے آپ کی ایم آر آئی اسکین کروائی جائے۔ اس کے بعد ہو سکتا
ہے کہ دوبارہ بیاپسی کی جائے۔ بعض اوقات چند مہینوں کے بعد پی ایس اے کی دوبارہ پیمائش کی جا سکتی ہے۔ پی
ایس اے کی سطح میں اضافے کی صورت میں، ہو سکتا ہے کہ دوبارہ بیاپسی کروائی جائے۔
ایم آر آئی اسکین
اس ٹیسٹ میں آپ کے جسم کے حصوں کی تفصیلی تصویر کشی کے لیے مقناطیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسکینر
میں ایک طاقتور مقناطیس لگا ہوا ہوتا ہے، لہذا آپ کو ایک چیک لسٹ مکمل کرنے اور اس پر دستخط کرنے کو کہا
جا سکتا ہے تاکہ یہ یقین دہانی کی جا سکے کہ یہ آپ کے لیے محفوظ رہے گا۔ آپ کا ڈاکٹر یا نرس آپ کو آپریشن
کے بارے میں سمجھائیں گے۔
مزید ٹیسٹ
اگر بیاپسی میں معلوم ہو کہ کینسر موجود ہے، تو یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا کینسر پراسٹیٹ سے باہر کے حصوں
میں تو نہیں پھیل گیا، آپ کے مزید ٹیسٹ بھی کیے جائیں گے۔ ان میں شامل ہو سکتے ہیں:
 ہڈی کا ایک اسکین
 آپ کی چھاتی اور ہڈیوں کا ایکسرے
 ایک سی ٹی اسکین
آپ کا ڈاکٹر یا نرس آپ کو بتائے گی کہ آپ کو کون سے ٹیسٹوں کی ضرورت ہے اور کیا ہوگا۔
مرحلہ بندی اور درجہ بندی
آپ کے کینسر کا مرحلہ جاننے سے ڈاکٹر کو آپ کے لیے درست علاج کا انتخاب کرنے میں مدد ملتی ہے۔
پراسٹیٹ کے کینسر کو چار مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے:
مرحلہ 1 – کینسر چھوٹا ہوتا ہے اور صرف پراسٹیٹمیں موجود ہوتا ہے۔
مرحلہ 2 – ریکٹم کے معائنے کے دوران کینسر سخت گلٹی کی طرح محسوس ہو سکتا ہے، مگر یہ ابھی تک
پراسٹیٹ گلینڈ تک ہی محدود ہوتا ہے۔
مرحلہ 3 – کینسر پراسٹیٹ سے باہر نزدیکی حصوں میں پھیلنا شروع ہو چکا ہوتا ہے اور ان نزدیکی نالیوں میں
موجود ہو سکتا ہے جن میں سے مادہ تولید(مادہ تولید کی تھیلیاں) گزرتا ہے۔
مرحلہ 4 – کینسر پراسٹیٹ گلینڈ سے دور تک پھیل چکا ہوتا ہے، مثال لمفاوی نوڈز، مثانہ یا پچھلے راستے
(ریکٹم) تک، یا مزید فاصلےپر موجود اعضاء مثال ہڈیوں یا جگر تک پہنچ جاتا ہے۔
درجہ بندی
کینسر کا درجہ یہ بتاتا ہے کہ کینسر کتنی تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ پراسٹیٹ کینسر کی درجہ بندی کینسر کے خلیوں
کے خوردبین میں نظر آنے کے حساب سے کی جاتی ہے۔
خلیوں کی درجہ بندی کے لیے گلیسن سسٹم ایک نہایت عام طریقہ ہے۔ یہ پراسٹیٹ کے اندر خلیوں کے انداز کو
دیکھتا ہے۔ اس میں پانچ انداز موجود ہوتے ہیں، جن کی 1-5 تک درجہ بندی کی جاتی ہے۔ درجہ 1 کا مطلب ہے کہ
پراسٹیٹ کے خلیے معمول کے مطابق نظر آتے ہیں، جبکہ درجہ 5 کا مطلب ہے کہ یہ معمول سے نہایت ہٹ کر
ہیں۔ بیاپسی کے ہر نمونے کی درجہ بندی کی جاتی ہے اور گلیسن اسکور حاصل کرنے کے لیے انہیں دو عدد نہایت
عام نظر آنے والے نمونوں کے ساتھ مالیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر نہایت عامانداز درجہ 4 پر ہے اور دوسرا
نہایت اہم انداز درجہ 3 پر ہے، تو ان کا گلیسن اسکور 7 ہو گا۔ اسے بعض اوقات 4+3 کے طور پر بھی لکھا جاتا
ہے۔
گلیسن اسکور جتنا کم ہو گا، کینسر کا درجہ بھی اتنا ہی کم ہو گا۔ ہلکے درجے(6 )کے کینسر عام طور پر آہستہ
پرورش پاتے ہیں اور ان کے پھیلنے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔7 کا اسکور ایک درمیانے درجے کا اسکور سمجھا جاتا ہے۔ اونچے درجے )8-10 )کی گلٹیوں کے زیادہ تیزی سے پرورش پانے کا امکان ہوتا ہے اور ان کے پھیلنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اونچے درجے کی گلٹیوں کو بعض
اوقات جارح گلٹیاں بھی کہا جاتا ہے۔
علاج ٔ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ آپ کے ڈاکٹر کو کئی چیزوں کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ ان میں سے بہترین علاج کا چناسب سے زیادہ اہم ہیں:
 آپ کی عمومی صحت
 کینسر کا مرحلہ اور درجہ
 آپ کا پی ایس اے کی سطح
 عالج کے ممکنہ ضمنی اثرات
 ممکنہ ضمنی اثرات کے بارے میں آپ کے خیالات۔
اپنے کسی علاج کے بارے میں اپنے ڈاکٹر سے بات کرنا اہم ہوتا ہے، تاکہ آپ یہ سمجھ سکیں کہ اس کا کیا مطلب
ہے۔ یہ اچھا رہے گا کہ آپ کسی ایسے شخص کو اپنے ہمراہ لے جائیں جو آپ کی زبان، بول
سکتا ہو۔ آپ کو ضرورت پیش آنے کی صورت میں ترجمان دستیاب ہوسکتے ہیں، مگر کوشش کریں کہ ہسپتال کو
اپنی ضرورت کے بارے میں پیشگی مطلع کریں۔
آپ کو یہ ظاہر کرنے کے لیے، کہ آپ علاج کو سمجھتے ہیں اور اس سے متفق ہیں، ایک رضامندی فارم پر دستخط
کرنا ہو گا۔ آپ کا علاج اس وقت تک نہیں کیا جائے گا جب تک آپ اس سے متفق نہیں ہوتے۔
کڑی نگرانی
یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا کینسر خاطر خواہ انداز میں بڑھ رہا ہے، آپ کا ڈاکٹر یا نرس باقاعدگی سے آپ کے
معائنے کریں گے۔انتہائی کم درجہ، ابتدائی مرحلےکے پراسٹیٹ کینسر نہایت آہستگی سے بڑھتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان کی وجہ
سے کوئی علامات بھی نظر نہ آئیں۔ بعض مرد اپنے اسپیشلسٹس کے ساتھ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کوئی بھی علاج
شروع کرنے سے پہلے انتظار کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ آیا کینسر بڑا ہو رہا ہے یا یہ زیادہ تیزی سے بڑھ
رہا ہے (پیش رفت کررہا ہے)۔
آپ کے جی پی کے ساتھ یا ہسپتال میں آپ کی باقاعدہ اپوائنٹمنٹس طے ہوں گی۔ آپ کا پی ایس اے کا درجہ ہر 3-4
ماہ کے بعد چیک کیا جائے گا اور ہر 6-12 ماہ کے بعد آپ کی مقعد کا ایک ڈیجیٹل معائنہ کیا جائے گا۔ ایک سال
کے بعد آپ کے پراسٹیٹ کی بیاپسی بھی کی جا سکتی ہے۔ آپ کا ڈاکٹر یا اسپیشلسٹ نرس آپ کو بتائیں گے کہ آپ
کو کس کثرت سے ٹیسٹ کروانے پڑیں گے۔
اگر کینسر میں بڑھوتری یا فروغ نہ دیکھا گیا، تو فعال کڑی نگرانی کے تحت رہنا محفوظ رہتا ہے۔ ہر سال آپ کے
ٹیسٹ اور معائنے کم ہوتے جائیں گے۔
اگر ان ٹیسٹوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کینسر نے بڑھنا شروع کر دیا ہے، تو آپ کے ڈاکٹر کینسر کے تدارک
کے لیے عالج کی سفارش کریں گے، مثال سرجری یا ریڈیو تھراپی۔
چوکس رہ کرانتظارکرنا
جہاں تک ممکن ہو، یہ علاج سے بچنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس طریقہ کی پیش کش عام طور پر عمر رسیدہ مردوں
کو کی جاتی ہے، یا ان مردوں کو جو سرجری یا ریڈیو تھراپی کے الئق نہیں ہوتے، یا جن کا پراسٹیٹ کینسر آہستگی
سے بڑھ رہا ہو اور جس کی وجہ سے ان کی معمول کی زندگی متاثر نہ ہوتی ہو۔
یہ دیکھنے کے لیے آپ پر نظر رکھی جائے گی کہ آیا آپ میں کوئی نئی علامات تو ظاہر نہیں ہو رہیں۔ باقاعدگی
کے ساتھ آپ کے پی ایس اے ٹیسٹ بھی کیے جائیں گے اور آپ کی مقعد کے ڈیجیٹل معائنے بھی ہو سکتے ہیں۔ آپ
کے ٹیسٹ فعال کڑی نگرانی کے نسبت عام طور پر کم ہوں گے۔
اگر آپ میں علامات ظاہر ہو جاتی ہیں یا آپ کا پی ایس اے لیول بڑھ جاتا ہے، تو آپ کو ہارمونی عالج کی پیش کش
بھی کی جا سکتی ہے۔ اگر اس طرح کی کوئی علامات نظر نہیں آتی کہ کینسر میں پیش رفت ہو رہی ہے، تو چوکس
رہ کر انتظار کرنا محفوظ ہوتا ہے۔
سرجری
سرجری کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ آپ کے ڈاکٹر آپ کے لیے مجوزہ بہترین آپریشن اور اس کے ممکنہ ضمنی
اثرات کے بارے میں بات کریں گے۔ پراسٹیٹ کی سرجری مخصوص مراکز میں کی جاتی ہے، لہذا ہو سکتا ہے کہ
آپ کو ہسپتال جانا پڑ جائے۔
پروسٹیکٹومی
ریڈیکل پروسٹیکٹومی – پورا پراسٹیٹ غدود نکال دیا جاتا ہے، جس کے لیے پیٹ کے کسی حصے کو کاٹا جا سکتا
ہے یا اس کے لیے خصیہ دانی اور پچھلے راستے کی درمیانی جگہ کو بھی کاٹا جا سکتا ہے۔ اس آپریشن کا مقصد
کینسر کے تمام خلیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ عمل صرف اسی وقت ہی ہوتا ہے جب یہ سمجھا جائے
کہ کینسر ابھی تک پراسٹیٹ غدود سے باہر نہیں پھیلا۔
آپ کے پیٹ میں ارد گرد چار یا پانچ چھوٹے زخم جو تقریبًا ایک سینٹی میٹر ہوتے ہیں ( و لیپروسکوپک پروسٹیکٹومی کی ہول سرجری) –
لگائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد، سرجن ان چھوٹے زخموں میں سے آلہ داخل کر کے، پراسٹیٹ غدود کو باہر نکال سکتا ہے۔یہ سرجری ایک مشین کے استعمال سے بھی کی جا سکتی ہے جس میں روبوٹ کی طرح بازو لگے ہوتے ہیں جو
نہایت نفیس، بتدریج اور نشانے پر کام کرتے ہیں۔ اسے روبوٹک- ایسسٹڈ لیپرا اسکوپک ریڈیکل پوسٹیٹکٹومی کہا جاتا ہے۔
سپکیپسیولر آرکی ڈیکٹومی
آپ کے جسم سے مردانہ ہارمون ٹیسٹو سٹیران کے درجے میں کمی کے لیے آپ کے خصیون کا ایک حصہ نکالنے کے لیے ایک آپریشن۔
ریڈیوتھراپی
ریڈیوتھراپی میں جسم کے باہر سے انتہائی طاقتور شعاعوں کو جسم میں داخل کر کے کینسر کے خلیوں کو تباہ کیا
جاتا ہے جبکہ عام خلیوں کو بہت کم نقصان پہنچتا ہے۔ اگر آپ کی ریڈیوتھراپی ہوئی تو آپ کو ہارمونی تھراپی بھی
دی جائے گی۔ریڈیوتھراپی عام طور پر جسم کے باہر سے دی جاتی ہے (ایکسٹرنل بیم ڑیڈیوتھراپی)۔ اس کا مقصد کینسر کے تمام
خلیوں کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔ اس علاج کو ریڈیکل ریڈیو تھراپی کہا جاتا ہے اور یہ 8 ہفتوں تک چل سکتی ہے۔ عام
طور پر عالج ہفتے کے ہر دن کیا جاتا ہے )پیر تا جمعہ(۔ عالج پر روزانہ چند منٹ لگتے ہیں۔
ابتدائی مرحلے کے یا ترقی یافتہ پراسٹیٹ کینسر کے حامل کچھ مردوں کو اندرونی ریڈیو تھراپی(بریکی تھراپی)
دی جاتی ہے ۔ یہ اس وقت ہوتی ہے جب چھوٹے چھوٹے تابکاری بیج پراسٹیٹ کے اندر داخل کیے جاتے ہیں۔
مٔو بیرونی ریڈیو تھراپی اور بریکی تھراپی پراسٹیٹ کینسر کے عالج میں برابر طور پر ثر ہیں۔ آپ کا ڈاکٹر ریڈیو
تھراپی سے پہلے یا بعد میں آپ کو ہارمونل تھراپی تجویز کر سکتا ہے۔
اگر ترقی یافتہ پراسٹیٹ کینسر کے حامل مردوں میں کینسر اس طرح کی عالمات ظاہر کر رہا ہو، مثال درد یا یہ
جسم کے دیگر حصوں مثال ہڈیوں میں پھیل گیا ہو، تو انہیں ریڈیو تھراپی دی جاسکتی ہے۔ عالمات کو کم کرنے کے
لیے ریڈیو تھراپی کافی مٔو معاون ریڈیوتھراپیکہا جاتا ہے۔ ثر ہو سکتی ہے۔ اسے
پراسٹیٹ کینسر کے لیے ریڈیکل تھراپی سے کچھ ضمنی اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ آپ کو زیادہ اور جلدی جلدی
پیشاب کی ضرورت پیش آسکتی ہے، پیچش ہو سکتے ہیں، اور ایستادگی حاصل کرنے میں مشکالت کا سامنا ہو
سکتا ہے۔ آپ کا عالج شروع کرنے سے پہلے آپ پر ان ضمنی اثرات کی وضاحت کر دی جائے گی۔
ریڈیو تھراپی دینے اور آپ پر مرتب ہونے والے اس کے کچھ ممکنہ ضمنی اثرات کے بارے میں ہمارے پاس آپ
کی زبان میں معلومات موجود ہیں۔
ہارمونی علاج
ہارمون خلیوں کی بڑھوتری اور ان کے افعال پر دسترس حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ پراسٹیٹ کینسر
ٹیسٹو سٹیرون ہارمون کے بڑھنے پر منحصر ہے۔ یہ خصیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ہارمونی علاج یا تو ٹیسٹو سٹیرون
کی مقدار کو کم کرتا ہے یا پھر اس ہارمون کے ساتھ کینسر کے تعلق کو روک دیتا ہے۔ انہیں ٹیکے یا گولیوں کے
طور پر دیا جا سکتا ہے۔
ہو سکتا ہے ابتدائی کینسر کے حامل کچھ ایسے مردوں کو صرف ہارمونی تھراپی ہی دی جائے، جو سرجری یا
ریڈیوتھراپی کے لیے موزو نہیں ہیں۔ یہ ان مردوں کو بھی دی جا سکتی ہے جن کی چوکس رہ کر انتظار کے
ذریعے نگرانی کی گئی ہو اور ان کا کینسر بڑھنا شروع ہو گیا ہو۔ ہارمونی تھراپی، ریڈیو تھراپی کے کورس سے
پہلے بھی دی جا سکتی ہے۔
مقامی طور پر ترقی یافتہ پراسٹیٹ کینسر کے حامل مردوں کو ہارمونی تھراپی ریڈیو تھراپی سے پہلے (جو کہ نیو-
کو زیادہ مٔو ایڈجوونٹ تھراپی کہلاتی ہے)بھی دی جاسکتی ہے کیونکہ یہ ریڈیو تھراپی ثر بنانے میں مدد دے سکتی
ہے۔ بعض اوقات یہ ریڈیو تھراپی کے بعد بھی دی جاتی ہے(ایڈجوونٹ تھراپی) تاکہ کینسر کے واپس آنے کا خطرہ
کم کیا جا سکے۔ ہارمونی تھراپی الگ علاج کے طور پر بھی دی جا سکتی ہے۔
ترقی یافتہ کینسر کے حامل مردوں کے لیے ہارمونی تھراپی بنیادی علاج ہے۔ یہ کینسر کو چھوٹا کر سکتی ہے، اس
کی بڑھوتری میں تاخیرکر سکتی ہے اور علامات کو کم کر سکتی ہے۔
ہارمونی علاج سے ضمنی اثرات سامنے آسکتے ہیں، مثال:
 ایستادگی حاصل کرنے میں دشواری (اریکٹائل ڈس فنکشن)
 جنسی خواہش میں کمی
 ہڈیوں کا پتال ہونا
 گرمی محسوس ہونا اور پسینے
 چھاتی سوج جانا اور درد ہونا
 وزن بڑھنا
 ہڈیوں کا پتال ہونا
 دل کے مسائل۔
کیموتھراپی
کیموتھراپی سے عالج میں کینسر کے خلیوں کو تباہ کرنے کے لیے دافع کینسر(سائیٹو ٹاکسک) ادویات استعمال کی
جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ پراسٹیٹ کینسر میں اسے کینسر کے عالج کے لیے اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب ہارمونی
تھراپی کے ذریعے کینسر پر مزید قابو نہ پایا جارہا ہو۔اس کا مقصد کینسر کو چھوٹا اور اس پر قابو پانا اور زندگی کے بہترین معیار کو برقرار رکھنے کے لیے علامات کا علاج کرنا ہوتا ہے
علامات پر قابو پانا ترقی یافتہ پراسٹیٹ کینسر ناپسندیدہ علامات ظاہر کر سکتا ہے، مثال:
 درد
 تھکن
 قبض۔
یہ علامات کینسر کا عالج کرنے سے ختم ہو سکتی ہیں۔ بعض اوقات علاج جلدی اثر دکھاتے ہیں اور آپ کچھ دنوں
میں ہی بہتری محسوس کرنے لگتے ہیں۔ دیگر علاج زیادہ وقت لے سکتے ہیں، لہذا افاقہ محسوس کرنے میں آپ کو
کچھ ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔
کینسر کےعلاج کے علاوہ، اس کی علامات میں کمی لالنے کے لیے دیگر کئی طریقے بھی موجود ہیں۔ آپ کا ڈاکٹر
یا اسپیشلسٹ نرس آپ کو مزید معلومات دے سکتے ہیں۔
طبی آزمائشیں
کینسر کا نیا اور بہتر عالج ڈھونڈنے کے لیے طبی آزمائشیں انجام دی جاتی ہیں۔ مریضوں پر کی گئی آزمائشوں کو
طبی آزمائشیں کہا جاتا ہے۔ ان آزمائشوں میں اب کئی ہسپتال حصہ لیتے ہیں۔
غالبا کئی سالوں ً آپ کا علاج ختم ہونے کے بعد آپ کے باقاعدہ معائنے اور خون کے پی ایس اے ٹیسٹ ہوں گے۔ جو کافی عرضے
تک جاری رہیں گے۔کچھ مرد یہ ٹیسٹ اپنے کینسر اسپیشلسٹ سے کروا سکتے ہیں، جبکہ دیگر لوگ اپنے جی پی کی سرجری پر اپنے
خون کے پی ایس اے ٹیسٹ کروا سکتے ہیں۔ اپنے کینسر اسپیشلسٹ سے اس بارے میں بات کرنا مفید ہو سکتا ہے
کہ علاج کے بعد آپ کی دیکھ بھال کیسے کی جائے گی، اور آپ اپنے مسائل کے بارے میں کس سے بات کر سکتے
ہیں۔
پراسٹیٹ کینسر سے نمٹنا
علاج سے ناپسندیدہ اور پریشان کرنے والے ضمنی اثرات سامنے آسکتے ہیں۔
جنسی مسائل – ہو سکتا ہے کہ آپ کو جنسی عمل کی خواہش نہ ہو یا آپ کو ایستادگی حاصل کرنے یا اسے برقرار
رکھنے میں مشکل آئے۔ اسے ایریکٹائل ڈسفنکشن (ای ڈی) کہا جاتا ہے۔ اگر آپ کو اپنی جنسی زندگی پر کچھ اثرات
محسوس ہوں جن سے نمٹنا مشکل ہو، تو آپ اپنے ڈاکٹر سے بات کر سکتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر جو کہ پراسٹیٹ کینسر کا
عالج کرتے ہیں اس طرح کے مسائل کے بارے میں بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں، اور آپ کو اس بارے
مین مشورہ دے سکتے ہیں۔ ای ڈی سے نمٹنے کے لیے،عملی طریقے بھی موجود ہیں اور آپ کا نرس یا ڈاکٹر آپ کو
مزید معلومات دے سکتے ہیں۔ کئی ہسپتالوں کے پاس اسپیشلسٹ نرس بھی ہوتے ہیں، جو کہ اس بارے میں آپ سے
بات کر سکتے ہیں۔
غیر ارادی طور پر پیشاب خطاہو جانا – یہ کینسر اور اس کے کچھ معالجہ جات کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ اس مسئلے
سے نمٹنے کے کئی طریقے ہیں۔ اگر آپ اس بارے میں پریشان ہیں، تو اپنے ڈاکٹر یا نرس کو بتائیں۔ کچھ ہسپتالوں
کے پاس طبی عملہ موجود ہوتا ہے، جو غیر ارادی طور پر پیشاب خطا ہو جانےپر مشورہ دیتا ہے۔
چھاتی میں سوجن –
بعض اوقات یہ ہارمونی تھراپی بائی کیلوٹامائیڈ(کیسوڈیکس) کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ ایک اور
ہارمونی دوا جسے ٹیموکسیفین کہا جاتا ہے، لینے سے چھاتی کی سوجن سے بچا جاسکتا ہے۔ بائی کیلوٹامائیڈ شروع
کرنے سے پہلے، آپ کا ڈاکٹر آپ کی چھاتی کے لیے ریڈیو تھراپی کا ایک مختصر کورس تجویز کر سکتا ہے۔ یہ
عام طور پر، کسی بھی قسم کی سوجن سے بچاتی ہے اور بہت کم، اگر ہوں تو، ضمنی اثرات مرتب کرتی ہے۔
آپکےاحساسات
جب آپ کو پتہ چلے کہ آپ کو کینسر ہے تو آپ کو بہت دھچکا لگ سکتا ہے اور آپ کے کئی جذبات ہو سکتے ہیں۔
ان میں غصہ، خفگی، احساس جرم، اضطراب اور ڈر شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ سب عمومی ردعمل ہیں اور یہ زیادہ
تر لوگوں میں بیماری کو تسلیم کر لینے کی کوشش کا ایک حصہ ہیں۔ محسوس کرنے کا کوئی اچھا یا برا طریقہ نہیں
ہے۔ آپ چیزوں سے اپنے انداز میں نمٹیں گے۔

مثانے کےخراب کنٹرول کا علاج کیسے ہو سکتا ہے؟
پہلے تو آپ کے ڈاکٹر یا کانٹی نینس کے مشیرآپکے مثانے کے خراب کنٹرول کی وجہ جاننا چاہیں گے جیسے کہ پروسٹیٹ کی کوئی بیماری، انفیکشن، ذیابیطس یا کچھ دوائیں۔
چند طریقےموجود ہیں جن سے پروسٹیٹ کی بیماری سے خراب ہونے والےمثانے کےکنٹرول کاعلاج ہوسکتا ہے:
1. اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں
اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے بعد آپ محسوس کرینگے کہ آپکو کسی علاج کی ضرورت نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یا اپنی روزمرہ کی عادات میں تبدیلی سے خراب مثانے میں بہتری آجاتی ہے
2. ادویہ
کئی ایسی دوائیں موجود ہیں جوکہ مثانے کے کنٹرول میں مدد دے سکتی ہیں۔ اپنے ڈاکٹر سے اس بارے میں مشورہ کیجئے۔
3. پروسٹیٹ کا آپریشن
اگر آپکو پروسٹیٹ کےمسائل ہیں تو آپریشن سےتمام یا غدود کے کچھ حصے نکالےجا سکتےہیں۔ آپریشن کا طریقہ پروسٹیٹ کے غدود کے سائز پر منحصر ہوگا۔
4. مثانے کی ٹریننگ
مثانے کی ٹریننگ کے ایک پروگرام سے مثانے اپنے میں زیادہ پیشاب جمع کرنے اہل بن سکتا ہے بغیر کسی ہنگامی احساس اور لیکیج کے خوف کے خواہ آپکا مثانہ غیر ضروری طور پر فعال ہی کیوں نہ ہو۔ ۔
5. پیلوک فلور عضلات کی ٹریننگ
پیلوک فلور کے عضلات کی ٹریننگ سےعضلات اس قدر مضبوط بن جاتے ہیں کہ وہ مثانہ اور آنتوں کو اچھی طرح کام کرنے پرقابو رکھتے ہیں۔ آپریشن سے قبل اپنے عضلات کی ٹریننگ کیجئے اورآپریشن کے فوری بعد شروع کر دیجئے (دیکھئے کتابچہ “پیلوک فلورعضلات کی ٹریننگ مردوں کیلئے”)۔
6. کانٹی نینس کی مصنوعات
پیشاب کے نکلنے سے نبٹنے کیلئے کانٹی نینس کی مصنوعات وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔ (دیکھئے کتابچہ “کانٹی نینس کی مصنوعات”)۔
اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپکو مسئلے کے بارے میں کافی معلومات ہیں، کیا علاج موجود ہیں، وہ کتنی اچھی طرح کام کرتے ہیں، کہاں وہ غلط ہو سکتے ہیں، تاکہ آپ اپنے ڈاکٹر کی مدد سے درست علاج کو چن سکیں جوکہ آپ کے لئے بہترین ہو۔

بڑی آنت کا کینسر
مغربی ممالک میں کینسر کی جو اقسام پائی جاتی ہیں‘ ان میں بڑی آنت کا کینسر سب سے زیادہ پائے جانے والے کینسرز میں سے ایک ہے۔ ہمارے ملک میں پہلے اس کی شرح اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن رفتہ رفتہ زندگی کے معمولات میں تبدیلیوں کی وجہ سے اب یہ مرض کافی عام ہو گیا ہے۔پوری بڑی آنت اوراس کے آخری حصے یعنی ریکٹم میں پیدا ہونے والے کینسر کوبڑی آنت کا کینسر کہا جاتا ہے۔بڑی آنت کی اندرونی تہہ یعنی ’’ایپی تھیلیم‘‘ میں تبدیلیوں کی وجہ سے ایک دانہ ’’پولپ‘‘ بنتا ہے۔یہ دانہ رفتہ رفتہ (کئی سالوں میں) کینسر کی شکل اختیارکرلیتا ہے۔
وجوہات
غذائی اثرات: پاخانے کے دیگر امراض کی طرح بڑی آنت کے کینسرکی بڑی وجہ بھی غذائی عادات میں تبدیلیاں ہیں۔ بڑے گوشت ‘بنی بنائی اورپکا کر خشک کئی گئی غذاؤں اور زیادہ چکنائی اور کم فائبر والی چیزوں کا زیادہ استعمال اس کا سبب بنتا ہے۔ عام طور پر جدید مغربی طرز کی غذا ؤں کا زیادہ استعمال کرنے والے لوگوں میں اس کی شرح زیادہ ہوتی ہے ۔
خاندانی اثرات: اس کینسرکی شرح اُن لوگوں میں زیادہ ہے جن کے خاندان میں کچھ لوگ پہلے سے اس بیماری کاشکاررہے ہوں۔
جسمانی مشقت کا کم ہونا: باقاعدہ ورزش کی کمی اور کم جسمانی مشقت کرنے والے لوگوں میں بھی اس کی شرح زیادہ ہے۔
پیدائشی بیماریاں: بڑی آنت کی کچھ پیدائشی بیماریاں مثلاًبڑی آنت کے دانے ‘کینسر کے جینز کا پیدائشی طور پروالدین سے بچوں میں منتقل ہونا وغیرہ بھی اس کا سبب بنتا ہے ۔
دیگر امراض : آنتوں کی سوزش اور کچھ دیگر بیماریاں بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں
یہ مرض مردوں میں زیادہ پایا جاتا ہے تاہم خواتین میں بھی اس کی شرح کچھ کم نہیں ہے۔ یہ 40سال سے زائد عمر کے لوگوں میں زیادہ پایاجاتا ہے لیکن والدین سے اولاد میں موروثی طور پر منتقل ہونے والا کینسر20 سال تک کی عمر کے لوگوں میں بھی ہوسکتا ہے۔
علامات
خون کی کمی ہوجانا خون کی کمی کی متعدد وجوہات ہیں تاہم سرطان زدہ حصے سے خون مسلسل ضائع ہوجانے کی وجہ سے بھی مریض میں خون کی کمی ہو جاتی ہے ۔اس علامت کے ظاہر ہونے کی صورت میں یہ امکان ہوتاہے کہ کینسر بڑی آنت کے ابتدائی حصے میں ہو۔
قبض کا ہونا یا پیٹ کا پھول جانا: بڑی آنت کے کینسر کی وجہ سے مریض کو دائمی قبض یا پیٹ میں گیس ہونے کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات مریض آنتوں کی مکمل رکاوٹ کی شکایت کے ساتھ ہسپتال کے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں آتے ہیں۔اس صورت میں کینسر آنتوں کو مکمل طور پر بند کردیتا ہے۔
پاخانے میں تازہ خون آنا: آنتوں کے آخری حصے میں کینسرکی صورت میں مریض کو پاخانے میں تازہ خون آتا ہے اور اسے بار بار پاخانہ کرنے کی حاجت ہو سکتی ہے۔
پاخانے کی عادات میں تبدیلی: بڑی آنت کے کینسر کی وجہ سے مریض کے پاخانہ کرنے کے معمول میں تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔ اگر مریض دن پہلے ایک بار اس کیلئے جاتاتھا تواب اس کو دن میں اس کی ضرورت کئی بار پیش آسکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی مریض کے پاخانے کی ہیئت میں بھی تبدیلی واقع ہوسکتی ہے۔
وزن کا گرنا: مریض کے وزن میں کمی واقع ہونا بھی اس مرض کی ایک علامت ہوسکتی ہے۔
علاج
ان مریضوں کو ترجیحاً’’ کولون اینڈ ریکٹل سرجن‘‘ یاکسی تجربہ کار جنرل سرجن سے رجوع کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر مریض کی تفصیلاً ہسٹری لینے اور کلینک میں اس کے معائنے کے علاوہ کچھ ٹیسٹ بھی تجویز کر سکتاہے جن میں کولونوسکوپی ‘ سی ٹی سکین‘ایم آرآئی خون کے ٹیسٹ وغیرہ شامل ہیں-بڑی آنت کا کینسر مکمل طورپر قابل علاج بیماری ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ کینسر ابتدا میں ہی تشخیص ہوجائے۔اگر یہ بہت زیادہ بگڑ نہ جائے تو اس کے علاج کے نتائج دیگر اعضاء کے مقابلے میں انتہائی اچھے ہیں۔البتہ کینسرخطرناک مرحلے میں داخل ہو جائے تو پھراس کے نتائج حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔
عام طور پر اس کینسر کو چارمراحل میں تقسیم کیاجاتا ہے۔ان کی اہمیت یہ ہے کہ کینسر کا علاج ہر مرحلے پر مختلف ہوتا ہے اوراسی نسبت سے نتائج بھی مختلف ہوتے ہیں۔
پہلا اور دوسرامرحلہ:پہلے مرحلے کے کینسر بڑی آنت یا ریکٹم کی دیوار تک محدود ہوتے ہیں۔
تیسرا مرحلہ : اس مرحلے میں کینسر بڑی آنت یا ریکٹم کے اردگرد کے حصوں اور غدود میں داخل ہوجاتا ہے۔
چوتھا مرحلہ : اس مرحلے کا کینسر بڑی آنت کے علاوہ دیگر اعضاء مثلاً جگر‘ پھیپھڑوں‘ہڈیوں یا دماغ تک پھیل جاتا ہے
کینسر کے علاج میں تین طریقے استعمال ہوتے ہیں۔
سرجری آپریشن کے ذریعے کینسر کو جسم سے نکال دیاجاتا ہے۔
ریڈیوتھیراپی شعاعوں کے ذریعے کینسر کو جلایا جاتا ہے جس سے وہ سکڑ جاتا ہے
ادویات
ادویات کے ذریعے کینسر کے سائز میں کمی کی جاتی ہے‘اس کو دیگر اعضاء تک پھیلنے سے روکا جاتا ہے یا پھیل جانے کی صورت میں اس کا علاج کیاجاتا ہے۔
پہلے اور دوسرے مرحلے کے کینسر میں عام طور پرآپریشن کے ذریعے کینسر کو جسم سے نکال دیاجاتا ہے
۔اس میں ر یڈیوتھیراپی یا کیموتھیراپی کی ضرورت نہیں ہوتی۔جدید طریقہ علاج میں کیمرے کے ذریعے آنت کے اندر سے کینسر کوہٹا دیا جاتا ہے ۔

تیسرے مرحلے میں عام طورپر سرجری سے پہلے مریض کا شعاعوں یا ادویات کے ذریعے علاج کیاجاتا ہے تاکہ کینسر کا سائز کم کرکے اسے سرجری کے قابل بنایاجاسکے۔ اس کے بعد آپریشن کرکے کینسر کو جسم سے نکال لیاجاتا ہے۔
چوتھے مرحلے میں کینسر بالعموم علاج کی حدود سے باہرہوجاتاہے۔اس مرحلے پر مریضوں کی اکثریت میں کینسر کو مکمل طور پر ختم نہیں کیاجاسکتااور علاج محض علامتوں کے دور کرنے تک محدود ہو جاتا ہے
کینسر میں عام طورپردوقسم کے آپریشن کئے جاتے ہیں۔
بڑی آنت کے متاثرہ حصے کو نکال کر آنت کو دوبارہ جوڑدیا جاتا ہے۔کبھی کبھار آنت کو عارضی طور پر پیٹ سے باہر لاکر اس پر بیگ لگایاجاتا ہے جس میں پاخانہ جمع ہوتا ہے۔ اکثر اوقات اس کو واپس آنت کے ساتھ جوڑ دیاجاتا ہے۔
ریکٹم کے آخری حصے کے کینسر میں ریکٹم سمیت مقعد کو نکال دیاجاتا ہے اور بڑی آنت کو پیٹ سے مستقل طور پر باہر نکال کر اس پر بیگ لگادیاجاتا ہے جس میں پاخانہ جمع ہوتاہے۔اگر کینسر اردگرد کے اعضاء مثلاً مثانے یابچہ دانی وغیرہ میں داخل ہوا تو اُنہیں بھی نکالنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔
لوگوں کو چاہیے کہ قدرتی غذائیں خصوصاً پھلوں‘ سبزیوں‘تازہ دودھ‘ دہی اور گوشت وغیرہ کا استعمال کریں۔ڈبہ پیک غذاؤں اور صنعتی طور پر تیارکردہ غذاؤں مثلاً چاکلیٹ ‘فاسٹ فوڈز وغیرہ کا استعمال کم سے کم کریں۔باقاعدہ ورزش کریں اوراپنے وزن کو کنٹرول میں رکھیں۔پاخانے سے متعلق کوئی بھی غیر معمولی علامت ظاہر ہونے کی صورت میں فوراً مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ خاندان میں اس کینسر کے مریض موجود ہونے کی صورت میں ابتدائی عمر میں ہی اس شعبے کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

سرطان امعاء مستقیم Bowel Cancer
بڑی آنت کے اس حصہ میں سرطان کے کئی نام ہیں مثلا
bowel cancer
Colorectal cancer
Anal cancer
Rectical cancer وغیرہ
تشرح۔۔۔۔anatomy
بڑی آنتوں کا یہ حصہ سیگمائیڈ قولون کے آخر سے شروع ہوکر مقعد تک 10-12 سینٹی میٹر لمبا ہوتا یے۔ بےڈھب۔ اوپر سے فراخ اور نیچے مقعد پر تنگ ہوتا ہے۔ مقام مقعد پر ارادی عضلات کا جال پھیلا ہوا ہے۔ اس مقام کی شکل کسی برتن سے ملتی جلتی ہے اس لیئے اسے باول کہتے ہیں۔ مطلب پیالہ نما۔ اس کی دیواروں میں زیادہ تر غدد ناقلہ ہیں۔ اور ارادی و غیر ارادی عضلات کا جال ہے جو فضلے کو مخصوص وقت تک روکتا ہے اور پھر بھر جانے پر خارج کرتا ہے۔ اس میں اعصاب بھی پائے جاتے ہیں۔ میوکس ممبرین کی تہیں بھی ہوتی ہیں۔ اس کے اندر رطوبات کا ترشہ کرنے والے غدد براز کا قوام نرم رکھتے ہیں۔ اگر رطوبات کا ترشہ کم ہو تو قبض۔ ترشہ زیادہ ہوتو اسہال۔ ان میں زیادہ تر چھوٹی آنتوں کی رطوبات ذاخل ہوتی ہیں۔ قبض پیدا ہونے میں چھوٹی اور بڑی آنتوں کی رطوبات کا دخل ہے۔ رہی سہی کسر سیگمائیڈ قولون کی رطوبات میں کمی سے قبض شدید ہوجاتی ہے۔
سرطان امعائے مستقیم۔۔۔۔
یہ کینسرامعائے مستقیم میں سیگمائیڈ قولون سے منسلک حصہ یا مقعد کے قریب اندر کی طرف ہوا کرتا ہے۔
علامات۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کی ابتداء میں۔ نامکمل حاجت۔ مقعد میں کچھ اوپر کی جانب بوجھ۔ دھیما دھیما درد۔ جلن۔ بودار اخراج۔ کبھی پیپ آلود۔ کبھی خون آلود فضلہ کا اخراج۔ کچھ لوگ اسے بواسیر سمجھ لیتے ہیں۔ براز کبھی سخت کبھی نرم۔ پاخانے کی گولائی متاثر ھونا۔
دوسرے درجہ۔۔۔۔۔ کی علامات
پیٹ میں درد۔ بخار رہنا۔ وزن میں کمی۔ براز تھوڑا اور بار بار آنا۔ مقعد میں بوجھ کا احساس اور درد۔ صحت دن بدن کمزور۔ بھوک نہایت کم۔ پیٹ میں گیس کے گولے۔ اسٹول ٹیسٹ کروایا جائے تو اس میں خون کے زرات نظر آتے ہیں۔ لمف نوڈز میں کینسر کا مادہ سرایئت کرجاتا ہے۔
تیسرا درجہ۔۔۔۔
یہ کینسر کا بڑھا ہوا درجہ ہے۔ علامات مزید گھمبیر ہوجاتی ہیں۔ لمف نوڈز کا لیبارٹری تجزیہ کروایا ھائے تو ان میں کینسر کی موجودگی کا انکشاف ہوتا ہے۔
ایلوپیتھی ۔۔۔۔۔اس میں اینڈو سکوپی کی جاتی ہے۔ پھر مقعد کے اندر بڑھے ہوئے لمف نوڈز کاٹ کر بائی اوپسی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اور مزید تسلی کیلیئے کارسینوجینیک اینٹی جن CEA ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔ بڑی آنتوں کا سٹی سکین کروایا جاتا ہے۔
یہ کینسر موروثی بھی ہوسکتا ہے۔
قولائسس قولون آنت کی مزمن سوزش کو کہتے ہیں۔ بعض اوقات یہی قولائسس بڑھ کر کینسر بن جاتا ہے۔ اس کا ٹیسٹ قولونوسکوپی سے کیا جاتا ہے۔
یاد رکھیئے تمام کینسر پولپس POLYPS سے بنتے ہیں۔ اگر آنتوں کے کسی حصہ میں پولپ ہے تو لازما کینسر ہوجائے گا۔ یہ پولپ عموما بڑی آنتوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان ہی کی وجہ سے براز کا اخراج بے ڈھبا۔ کبھی قبض۔ کبھی پیچش کی علامات شروع ہوتی ہیں۔ پولپ مزید کئی جگہوں پر بھی بن سکتے ہیں لیکن عام طور پر آنتوں۔ معدہ۔ اندام نہانی۔ پتہ۔ ناک۔ اور دماغ میں بنتے ہیں۔ پولپ کسی ٹشو کی بےڈول نشو نما سے بنتے ہیں۔ اور یہ وہ ٹشو ہوتا ہے جس کا بنیادی خلیہ طبعی افزائش نہ پا سکا ہو۔ یہی بڑھ کر ٹشو کو بے ڈول بنا دیتا ہے۔ اور پولپ کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ یہیں سے کینسر کی ابتداء ہوتی ہے جس میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔
ایلوپیتھک علاج۔۔۔
اس کا علاج کیمو تھراپی سے کیا جاتا ہے۔ جس کے سائڈ ایفیکٹ اتنے شدید ہیں کہ شائد ہی کوئی مریض جانبر رہ پاتا ہو۔ کیمو تھیراپی کروانے سے اول جسم کی مزاحمتی طاقت ختم ہوجاتی ہے۔ پھر جسم کے بال اڑ جاتے ہیں۔ مریض نہایت کمزور اور شکل اتنی ڈراونی ہوجاتی ہے کہ جاننے والے پہچان نہیں پاتے۔
اسباب مرض۔۔۔۔۔
اس جدید دور میں امراض کا سب سے بڑا سبب گوشت (ہر قسم) کی کثرت۔ برگر۔ پیزے۔ شوارمے۔ پیپسی۔ ریڈی میڈ غذائیں ہیں۔ ایک عالمی سروے کے مطابق گوشت خور افراد میں کینسر بڑی تیزی سے پھیلتا ہے۔ ویجیٹیبل آئل۔ سن فلاور آئل۔ کارن آئل بھی اس کا سبب ہیں۔ کیونکہ جب ان تیلوں کو زیادہ درجہ حرارت پر پکا کر کھایا جاتا ہے تو یہ دماغ میں موجود OMEGA-3 کو OMEGA-6 میں تبدیل کردیتا ہے۔ اومیگا تھری کینسر سے بچاو کے علاوہ کئی دوسری علامات میں بھی مفید ہے جبکہ اومیگا سکس کینسر کو سپورٹ کرتا ہے۔
وٹامن ڈی اور کیلشیئم کی کمی بھی اس مرض کے اضافہ میں مددگار ہے۔
اس لیئے اپنے نظام استفراغ پر خصوصی توجہ دیں۔
علاج بالغذاء۔۔۔۔۔
اول اسباب دور کریں۔ گوشت ہر قسم بند کریں۔ سبزیاں کھائیں۔ بول براز کا اخرج درست کریں۔ سالن میں مرچ مصالحہ کم اور ہلدی کا استعمال زیادہ کریں کیونکہ ہلدی میں کیومن کیمیکل پایا جاتا ہے۔ سادہ غذاء سب سے بہتر علاج ہے۔ کھانے کے ساتھ پانی کم مگر تازہ پیئیں۔ قشری اعصابی (گرم تر)۔ اعصابی قشری (ترگرم) اور اعصابی مخاطی (تر سرد) غذائیں استعمال کریں۔
اصول علاج بالنظریہ مفرد اعضاء اربعہ۔۔
حرارت کے ساتھ رطوبات پیدا کی جائیں۔ الکلی پیدا کرنے والی اغذیہ کا استعمال کریں۔ سیلز تک آکسیجن پہنچانے کیلیئے قشری اعصابی اغذیہ و ادویہ استعمال کریں۔جو کینسر عام پایا جاتا ہے اسے کارسی نوما کہتے ہیں جو قشری عضلاتی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ عضلاتی اور مخاطی کینسر بھی پائے جاتے ہیں۔کارسی نوما کا سبب قشری عضلاتی تحریک ہے۔ اس کا علاج حرارت اور صالح رطوبات سے ہوتا ہے۔ گویا قشری اعصابی اور اعصابی قشری تریاق سے علاج ہوگا۔اس کے لیئے HSJ اور T-5 اعلی دوائیں ہیں۔ اسی گروپ کی غذائیں۔
اگر ہائی پوٹینسی ادویہ سے علاج کرنا چاہیں تو آرسی4 ایک رتی ہمراہ T-5 دن میں تین بار دیں۔ غذاء اعصابی دیں۔
نسخہ RC-4۔۔۔۔۔۔۔ دس گرام رسکپور اچھی طرح سرمہ ساں کرلیں۔ اور ایک کلو میٹھے سوڈے میں ملا کر دوبارہ رگڑائی کریں مرکب کا رنگ سیاہ ہوجائے تو بس تیار ہے۔

ہڈیوں کا کینسر:
پختہ ہڈیوں کی بناوٹ تین قسم کے ٹشوز سے ہوتی ہے۔ کمپیکٹ ٹشو (بیشتر ہڈیوں کا سخت بیرونی حصہ)، کینسیلس ٹشو اور اسفنج نما ٹشو (جو ہڈیوں کے اندر ہوتا ہے اور جس میں ہڈیوں کا گودا ہوتا ہے اور جو خون کے خلیات بناتا ہے)۔
سب چونڈرل ٹشو (جوڑوں کی ملائم ہڈیوں کے ٹشو) کرکری ہڈی کی ایک تہ ان سب چونڈرل ٹشوز کو ڈھانپے رہتی ہے تاکہ جوڑوں کی حرکت کو ٹیک میسر آسکے۔ ہڈیاں اندرونی اعضا کو سہارا دیتی اور تحفظ فراہم کرتی ہیں، مسلز کے لئے لیور اور تناﺅ بڑھانے کے طور پر کام کرتی ہیں تاکہ حرکت پیدا ہو سکے اور ہڈیوں کے گودے (بون میرو) میں خون کے خلیات (بلڈ سیلز) کو پیدا اور اسٹور کرتی ہیں۔
ہڈیوں کی رسولی اور کینسر:
ہڈیوں کے ٹیومر (کینسر سے غیر متاثر ) یا (کینسر سے متاثر) ہو سکتے ہیں۔ کینسر سے متاثر ہڈیوں کے ٹیومرز کے مقابلے میں کینسر سے غیر متاثر ہڈیوں کے ٹیومرزیادہ عام ہیں۔ یہ دونوں اقسام نشوونما پا کر ہڈیوں کی صحت مند ٹشوز کو دبا سکتی ہیں اور انہیں جذب کر کے یا ہٹا کے ابنارمل ٹشو لا سکتی ہیں۔ البتہ کینسر سے غیر متاثر ٹیومرز پھیلتے نہیں ہیںاورشاذو نادر ہی زندگی کے لئے خطرے کا باعث ہو سکتے ہیں۔
جو کینسر ہڈی میں نمودار ہوتا ہے (پرائمری بون کینسر ) وہ وہی مرض نہیں جیسا کہ وہ کینسر ہوتا ہے کہ جوجسم کے دیگر حصوں سے ہڈی سے سرایت کر جاتا ہے۔ (سیکنڈری اسٹیج کینسر )۔ پرائمری بون کینسر بہت کم بلکہ شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔صرف امریکہ میں ایک سال کے دوران اس کے لگ بھگ 25سو نئے کیس تشخیص ہوئے ۔ عام طور پر ہڈیاں ان ٹیومرز کی آماجگاہ بنتی ہیں جو دیگر اعضاءکے کینسر کے پھیلنے (میٹا اسٹیٹس) کا نتیجہ ہوتے ہیں جیسے کہ سینے ، پھیپھڑوں اور پروسٹیٹ (غدود مثانہ) کے کینسر۔اس مضمون میں ہم پرائمری بون کینسر سے متعلق آپ کو بتائیں گے۔
ہڈیوں میں نموپانے والے کینسر کی اقسام:
ہڈیوں کے کینسر کی سب سے عام قسم اوسٹیو مار کو ماہے جو کہ بڑھتی ہوئی ہڈیوں کے نئے ٹشو میں فروغ پاتا ہے۔ کینسر کی ایک اور قسم چونڈرو سار کو ما ہے جو کرکری ہڈیوں میںنمودار ہوتا ہے سے پتہ چلتا ہے کہ بون کینسر کی ایک اور قسم ایونگز سار کو مابون میر و(ہڈی کے گودے) میںناپختہ نرو ٹشو سے شروع ہوتا ہے۔
اوسٹیو مار کو ما اور ایونگز مار کو ما کے بار بار نمو پانے کا رجحان زیادہ تربچوں اور نو بلوغیت میں پایا جاتا ہے جبکہ چونڈرو مار کو ما اکثر بالغوں میں روپذیر ہوتا ہے۔
ہڈیوں کے کینسر کے خطرے کے ممکنہ عوامل:
گو سائنس دان اس بارے میں اب بھی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ ہڈیوں کے کینسر کا سبب کیا ہے البتہ کئی عوامل ہیں کہ جو کسی فرد میں خطرات کو بلند کر سکتے ہیں یہ کینسر زیادہ تر بچوں اور نو عمروں میں نمو پاتا ہے خاص طور پر ان میں جو کسی اور کیفیت کی بنا ءپر تابکاری یا کیمو تھراپی کراچکے ہوں۔ بالغ جو پیجٹ بیماری (ایک غیر کینسر کیفیت جو ہڈیوں کے نئے خلیات کی ابنارمل ڈیویلپمنٹ کی خصوصیات کی حامل ہوتی ہے) کا شکار ہوں ان میں اوسٹیو سار کوما کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔
ہڈیوں کے کینسر کی ایک معمولی تعداد موروثی بھی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پروہ بچے جنہیں موروثی ریٹینو بلا سٹو ما (آنکھوں کا ایک غیر عام کینسر )ملا ہو۔ ان میں اوسٹیو ساکوما کے فروغ کے زیادہ خطرات ہو سکتے ہیں۔
ہڈیوں کے کینسر کی علامات:
ہڈیوں کے کینسر کی انتہائی عام علامات درد ہے۔ البتہ علامات مختلف بھی ہو سکتی ہیں جو کہ کینسر کی جائے وقوع اور سائز پر منحصر ہوتی ہے جو ٹیومر جوڑوں کے اندر یا قریب میں نمودار ہوتے ہیں ان کے سبب متاثر جگہوں پر ورم یا ملائم پن ہو سکتا ہے
بون کینسر عام حرکات و سکنات میں مداخلت کا سبب بن سکتا ہے اور ہڈیوں کو کمزور کر سکتا ہے اور عام طور پر اس کا نتیجہ فریکچر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ دیگر علامات میں تھکن، بخار، وزن میں کمی اور اینمیا شامل ہے۔ البتہ ان میں سے کوئی بھی علامت کینسر کا یقینی اشارہ نہیں۔ یہ دیگر کم سیریس قسم کی کیفیات کا سبب بھی ہو سکتی ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ آپ پہلے کسی ڈاکٹر سے چیک اپ کر الیں۔
ہڈیوں کے کینسر کی تشخیص:
ہڈیوں کے کینسر کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر مریض کی ذاتی اور فیملی میڈیکل ہسٹری کے بارے میں پوچھ سکتا ہے اور اس کا مکمل میڈیکل جائزہ لے سکتا ہے۔ ڈاکٹر خون کا ٹیسٹ بھی تجویز کر سکتا ہے تاکہ الکلائن فاسفیٹ نامی ایک انزائم کی سطح معلوم کی جاسکے۔
خون میں الکلائن فاسفیٹ کی وافر مقدار اس وقت پائی جاسکتی ہے جب وہ خلیات جو ہڈیوں کے ٹشو تخلیق کرتے ہیںبے حد ایکٹیو ہوں۔ جب بچے کی نشوونما ہو رہی ہو، جب کوئی ٹوٹی ہوئی ہڈی دوبارہ درست ہو رہی ہویا جب بیماری یا ٹیومر کے سبب ابنارمل بون ٹشو کی پروڈکشن ہو رہی ہو چونکہ اس انزائم کے ہائی لیولز عام طور پر بڑھتی عمر کے بچوں اور عنفوان شباب میں پائے جاتے ہیںاس لئے یہ ٹیسٹ مکمل طور پر ہڈی کے کینسر کی قابل اعتبار علامت نہیں ہے۔
ایکسرے ہڈی کے ٹیومر کی جائے وقوع، سائز اور شیپ ظاہر کر سکتا ہے۔ اگر ایکسرے سے یہ تجویز ہوتا ہے کہ ٹیومر، کینسر ہو سکتا ہے تو پھر ڈاکٹر اسپیشل امچنگ ٹیسٹ تجویز کر کے بون اسکین، سی ٹی اسکین، ایم آر آئی یا اینجیو گرام۔ البتہ بائپسی (ہڈی کے ٹیومر میں سے ٹشو کے نمونے کا حصول ) جس کی مدد سے یہ دریافت کیا جاسکتا ہے کہ آیا کینسر موجود ہے۔
سر جن نیڈل بائپسی یا انسا ئشل یا ٹلپسی سر انجام دے سکتا ہے۔
نیڈل بائلپسی کے دوران سرجن ہڈی میں ایک باریک سوراخ کر کے سوئی کی مانند ایک آلے کی مدد سے ٹیومر میں سے ٹشو کا ایک نمونہ نکال لیتا ہے۔ انسائشنل بائپسی میں ٹیومر کو کاٹ کر اس میں سے ٹشو کا نمونہ نکالتا ہے۔
یہ بائپسی آرتھو پیڈک اونکولو جسٹ زیادہ بہتر طور پر کرتے ہیں (یعنی وہ ڈاکٹر جو بون کینسر کی تشخیص میں مہارت اور تجربہ کے حامل ہوں) ایک پیتھالوجسٹ (یعنی وہ ڈاکٹر جوبیماری کی شناخت مائیکرو اسکوپ کے نیچے خلیات اور ٹشوز کا جائزہ لے کر کرتا ہے) ٹشو کا جائزہ لے کر تشخیص کر سکتا ہے کہ آیا یہ کینسرزدہ ہے یا نہیں۔
ہڈیوں کے کینسر کے علاج کی ترجیحات:
علاج کا انحصار، کینسر کے ٹائپ ، سائز جائے وقوع اور کینسر کے سٹیج پر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مریض کی عمر اور عام صحت بھی مدنظر رکھی جاتی ہے۔ عام طور پر بنیادی علاج سرجری ہے۔ گو بعض اوقات عضو کو کاٹنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ البتہ آپریشن سے قبل یا بعد کیمو تھراپی نے کئی کینسر میں عضو کی بریدگی کو ممکن بنا دیا ہے۔ جب مناسب سمجھا جاتا ہے تو سرجن عضو کو کاٹنے سے گریز کرتے ہیں اور صرف ہڈی کے کینسرسے متاثر حصے کونکال دیتے ہیں اور اس کی جگہ ایک مصنوعی آلہ لگا دیتے ہیں جو کہ پرو ستھیسس کہلاتا ہے۔کیمو تھراپی اور تابکاری بھی تنہا یا ملا کر (کمبی نیشن) استعمال کی جاتی ہے۔

چھاتی کا کینسر:
چھاتی کا کینسر اس وقت ہوتا ہے جب چھاتی کے کچھ خلیات غیر معمولی طور پر بڑھنے لگیںاور غیر ضروری گچھوں کی شکل میں چھاتی میں جمع ہونے لگیں۔ خواتین میں چھاتی کا کینسر سب سے عام کینسر ہے ، یہ مردوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ 2006 کے بعد سے اکتوبر بین الاقوامی چھاتی کے کینسر سے آگاہی کا مہینہ ہے۔چھاتی کے کینسر ، روک تھام کے طریقوں ، جلد پتہ لگانے کی اہمیت ، ہدف گروپوں ، سروس سینٹر کا مقام ، اور چھاتی کے کینسر کا پتہ لگانے سے روکنے کے لئے مربوط خدمات کی فراہمی کے امکانات کو بڑھانے والے خطرے کے عوامل کے بارے میں عام طور پر خواتین کو آگاہی دینااس آگہی مہم کا حصہ ہیں۔ فی الحال ، چھاتی کے کینسر کی وجوہات کے بارے میں کافی معلومات نہیں ہیں ، لیکن اس میں خطرے والے عوامل کا علم ہے جو چھاتی کے کینسر کی افزائش کے امکان کو بڑھاتے ہیں۔ لہٰذا ، بیماری کی روک تھام اور جلد پتہ لگانے سے چھاتی کے کینسر کوکنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں ہونے والی تحقیق کے مطابق ، ہر 8 میں سے 1 خاتون اپنی زندگی کے دوران چھاتی کے سرطان کا شکار ہوتی ہے

نشانیاں و علامات:
چھاتی کا کینسر عام طور پ گلٹی کے طور پر سامنے آتا ہے جو چھاتی کے باقی ٹشو سے مختلف محسوس ہوتا ہے۔۸۰ فی صدسے زیادہ کیسزانگلیوں سے اس طرح کی گلٹی کا پتہ لگا کردریافت کیے جاتے ہیں۔ تاہم ، چھاتی کے ابتدائی کینسر کا پتہ میموگرام کے ذریعہ ہی چلتا ہے۔بغل میں واقع لمف نوڈزمیں پائی جانے والی سولیاںبھی چھاتی کے کینسر کی نشاندہی کرسکتی ہیں۔گلٹی کے علاوہ چھاتی کے کینسر کی نشانیوں میںجلد کا موٹا ہونا ، ایک چھاتی بڑی یا نیچے ڈھلک جانا ، نپل کی پوزیشن بدلنایا شکل بدلنا یا الٹی ہوجانا ، جلد میں گڑھے پڑنا ، نپل پر یا اس کے آس پاس دانے اور موادخارج ہونا شامل ہوسکتا ہے نپل ، چھاتی یا بغل کے کسی حصے میں مستقل درد اور بغل کے نیچے یا ۔کالربون کے آس پاس سوجن ،درد بھی بریسٹ کینسر کی تشخیص کرنے میں مدد دیتی ہے۔
چھاتی کے کینسر کی ایک اور علامت پیچیدہ چھاتی کی پیجٹ سنڈروم ہے۔ یہ سنڈروم ایکزیما کی طرح بریسٹ کی جلد کی تبدیلیوں کے طور پر ظاہرہوتا ہے۔ جیسے نپل کی جلد کی لالی ، رنگین ہو جانا یا ہلکا ہونا۔ جیسے جیسےچھاتی کے پیجٹ کی بیماری بڑھتی ہے ، علامات میں بھی اضافہ ہوتا ہے جیسے کہ کھجلی ، حساسیت میں اضافہ ، جلن اور درد وغیرہ شامل ہے۔ نپل سے موادبھی خارج ہوسکتا ہے۔ چھاتی کے پیجٹ کی بیماری کی تشخیص ہونے والی تقریبا نصف خواتین کی چھاتی میں گلٹی بھی ہوتی ہے۔
اکثر عورتوں میں چھاتیوں میں گانٹھیں عام بیماری ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی نرم گٹھلیاں سی ہوتی ہیں، جن میں رقیق مادہ بھرا ہوتا ہے انہیں رسولیاں بھی کہتے ہیں۔عورت کی ماہواری کے نظام کے دوران ان میں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ان میں زخم ہو جاتے ہیں اور اگر انہیں دبایا جائے تو درد ہوتا ہے۔کچھ رسولیاں چھاتی کا سرطان ہو سکتی ہیں:
چونکہ چھاتی کی رسولیوں میں سرطان کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے، اس لیے عورت کو چاہیے کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ اپنی چھاتیوں کا معائنہ ضرور کرے۔اگر عورت نے گزشتہ ایک سال کے دوران بچے کو اپنا دوھ پلایا ہو تو ایک یا دونوں چھاتیوں کی بھٹنی سے دودھیا رنگ یا بے رنگ مادے کا اخراج عام بات ہے۔ اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر نپل سے برائون، سبز یا خون کے رنگ کا مادہ خارج ہو رہا ہے، خاص طور پر صرف ایک بھٹنی سے تو یہ سرطان کی علامت ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں فوراً اپنا معائنہ کروائیں۔
چھاتی کا انفیکشن:
اگر ایک عورت، بچے کو اپنا دودھ پلا رہی ہے اور اس کی چھاتی پر سرخ رنگ کے نشان پیدا ہو جاتے ہیں، جن میں جلن محسوس ہوتی ہے تو اس بات کا خدشہ ہو سکتا ہے کہ اسےورم پستان یا چھاتی کے ورم کی شکایت ہو گئی ہے۔ یہ سرطان نہیں ہے اور اس کا علاج آسانی سے ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر عورت ،بچے کو اپنا دودھ نہیں پلا رہی اور ایسے میں یہ شکایت ہو تو یہ سرطان کی علامت ہو سکتی ہے۔
چھاتی کا سرطان عام طور پر آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ اگر اس کا جلد پتا چل جائے تو بعض اوقات اس کا علاج ہو سکتا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کس عورت کو چھاتی کا سرطان ہو سکتا ہے۔ جن عورتوں کی ماں یا بہنوں کو چھاتی کا سرطان ہو چکا ہویا جس عورت کو رحم کا سرطان ہو، اسے چھاتی کا سرطان ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔50سال سے زیادہ عمر کی عورتوں میں چھاتی کے سرطان زیادہ عام ہیں۔
خطرے کی علامتیں:
صرف ایک چھاتی پر ایک کھردری گانٹھ (رسولی) جس میں کوئی درد نہ ہو اور دبانے سے جلد کے نیچے حرکت نہ کرے۔
چھاتی پر سرخ یا زخم جو ٹھیک نہ ہو رہا ہو۔
چھاتی کی جلد اندر دب گئی ہو یا لیموں یا نارنگی کی سطح کی طرح ناہموار اورکھردری ہو گئی ہو۔
چھاتی کی بھٹنی(نپل) اندر کی طرف دب گئی ہو۔
صرف ایک بھٹنی (نپل) سے غیر معمولی طور پر مادہ خارج ہو رہا ہو۔
بازو کے نیچے سوجن جس میں درد بھی ہو۔
چھاتی کے کینسر کی تشخیص اور علاج:
اگر آپ باقاعدگی سے اپنی چھاتیوں کا معائنہ کرتی ہیں تو بہت ممکن ہے کہ چھاتیوں کی شکل یا ان میں کسی تبدیلی یا نئی گانٹھ (رسولی )کا آپ کو فوراً پتا چل جائے۔ میمو گرام ایک خاص قسم کا ایک ایکسرے ہوتا ہے جو چھاتی کی گانٹھوں کا اس وقت پتالگا لیتا ہے جب وہ بہت چھوٹی اور کم خطرناک ہو تی ہیں ۔ لیکن میمو گرام سے معائنہ کرانے کی سہولت بہت سی جگہوں پر دستیاب نہیںہوتی اور یہ بہت مہنگا بھی ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ یقینی طور پر نہیں بتا سکتا کہ کوئی گانٹھ سرطان زدہ ہے یا نہیں۔
یہ جاننے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ کس عورت کو چھاتی کا سرطان ہے ۔ یہ طریقہ بائیولپسی کہلاتا ہے۔ اس طریقے میں سرجن چھاتی کی پوری گانٹھ یا اس کا ایک حصہ سوئی یا نشتر کے ذریعے نکال لیتا ہے اور اسے لیبارٹری بھیج دیا جاتا ہے۔
چھاتی کے سرطان کے علاج کا انحصار اس بات پر ہے کہ سرطان کتنا پھیل چکا ہے اور شروع میں ہی پتا لگا لیا گیا ہے تو آپریشن کے ذریعے گانٹھ (رسولی) نکالنا کافی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض صورتوں میں پوری چھاتی کو آپریشن کے ذریعے کاٹ دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی ڈاکٹر دوائوں اور شعاع ریزی کے طریقے بھی استعمال کر تے ہیں۔
کوئی بھی نہیں جانتا کہ چھاتی کے سرطان سے کیسے بچا جائے لیکن ہمیں یہ معلوم ہے کہ اگر اس کی جلد تشخیص اور علاج ہو جائے تو اس سے بچا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ علاج کے بعد اکثر عورتوں کو دوبارہ سرطان کی شکایت نہیں ہوتی۔ یہ دوسری چھاتی میں ہو سکتا ہے یا پھر کبھی کبھی جسم کے کسی اور حصے میں ہو سکتا ہے۔

خطرے والے عوامل کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
قابل ترمیم خطرے والے عوامل (ایسی چیزیں جو لوگ خود کو تبدیل کرسکتے ہیں ، جیسے الکوحل کا استعمال) ، اورخطرے کے فکسڈ عوامل (ایسی چیزیں جن کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ، جیسے عمر اور حیاتیاتی جنس)چھاتی کے کینسر کے بنیادی خطرا ت خواتین اور بڑی عمر کے ہیں۔ دیگر ممکنہ خطرات کے عوامل میں جینیات ، بچے پیدا ہونے کی کمی یا دودھ پلانے کی کمی ،بعض ہارمونز کی ذیادتی ، بعض غذائیں اور موٹاپا شامل ہیں۔ ایک مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تابکاری چھاتی کے کینسر کی نشوونما کے لئے ایک خطرناک عنصر ہے۔
جن خواتین میںجوانی میں تیزی سے وزن بڑھتا ہے ان کو انکے مقابلے میں زیادہ خطرہ ہوتا ہے جو بچپن سے ہی زیادہ وزن رکھتی ہیں۔ اسی طرح جسم میں کولیسٹرول کی زیادتی بھی خطرہ بڑہاتی ہے۔ الکحل پینے سے چھاتی کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ، یہاں تک کہ نسبتاکم (ایک ہفتے میں ایک سے تین مشروبات) اور اعتدال پسند سطح پر بھی، جبکہ ذیادہ پینے والوں میں یہ خطرہ سب سے زیادہ ہے۔ غذائی عوامل جو خطرے کو بڑھا سکتے ہیں ان میں اعلی چربی والی غذا ، موٹاپا ،کولیسٹرول کی ذیادتی شامل ہے۔ غذائی آئوڈین کی کمی بھی ایک کردار ادا کرسکتی ہے۔تمباکو نوشی سے چھاتی کے کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے ، اگرسگریٹ نوشی زیادہ ہوتوخطرہ زیادہ ہوتا ہے۔طویل مدتی تمباکو نوشی کرنے والوں میں ، خطرہ 35٪ سے بڑھ کر 50٪ فی صدہو جاتا ہے۔ جسمانی سرگرمی کی کمی چھاتی کے کینسرکی زیادہ اموات سے منسلک ہوتی ہے۔ اس خطرہ کو باقاعدہ ورزش سے کم کیا جاتا ہے۔مانع حمل ہارمونزکے استعمال اورسن یاس سے قبل چھاتی کے کینسر میں ایک تعلق نظر آتا ہے،لیکن کیا پیدائش پر قابو پانے والی گولیاں سن یاس سے قبل چھاتی کے کینسر کا سبب بنتی ہیں۔ اگر واقعی کوئی لنک ہے تو ، کافی کم ہے۔

1980 کی دہائی میں ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ اسقاط حمل سے چھاتی کے کینسر کے خطرے میں اضافہ ہوتا ہے۔لیکن سائنسی تحقیقات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اسقاط حمل چھاتی کے سرطان کے خطرہ سے وابستہ نہیں ہے۔ خطرے کے دیگر عوامل میں تابکاری اور دوسرے متعدد کیمیکلوں کو بھی جوڑا گیا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ بریسٹ کینسر میں سے 5-10٪ فی صد کی بنیادی وجہ جنیاتی ہے۔تمام خواتین میں بریسٹ کینسر ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔لیکن مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر بعض خواتین میںاس کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ایسی خواتین جن کی والدہ،نانی،دادی،بہن یا خالہ کو بریسٹ کینسر ہو ان کو بریسٹ کینسر ہونے کے امکانات ذیادہ ہوتے ہیں۔عمر کے بڑہنے کے ساتھ ،بارہ سال سے قبل ماہواری کا آغاز،ماہواری کی بندش ۵۰ سال کی عمر کے بعد،جن خواتین کو کبھی بچہ نہ ہوا ہو یا جن کے پہلے بچے کی پیدائش ۳۰ سال کی عمر کے بعد ہوئی ہو، ایسی خواتین جو بانجھ ہوں اور ایسی کواتین جن کی ایک بریسٹ کینسر کا شکار ہو چکی ہو ،ایسی تمام خواتین میں بریسٹ کینسر کے امکانات قدرے بڑھ جاتے ہیں۔مندرجہ بالا تمام اسباب کے ساتھ ساتھ اگر کوئی خاتون اپنے بچے کو دودھ نہ پلائے یا اس کی خوراک صحت افزا نہ ہو یا وہ سگریٹ نوشی کی عادی ہو تو اس مرض کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

دیگر جینیاتی عوامل میں چھاتی کے ٹشو کی کثافت اور ہارمونزکی مقدار شامل ہوتی ہے۔ چھاتی کے ٹھوس ٹشو والی خواتین کو ٹیومر ہونے کا زیادہ امکان رہتا ہے اور چھاتی کے کینسر کی تشخیص کا امکان کم ہوتا ہے – کیونکہ ٹھوس ٹشوز کی وجہ سےمیموگرامز پر ٹیومر کم دکھائی دیتے ہیں۔ مزید برآں ، قدرتی طور پرذیادہ ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کی سطح والی خواتین کو بھی ٹیومر کی نشوونما کا زیادہ خطرہ ہے۔ذیابیطس چھاتی کے کینسر کے خطرے میں بھی اضافہ کرسکتا ہے۔ ۔ ہارمون تھراپی چھاتی کے کینسر کے اضافے کے خطرے سے وابستہ ہے۔طبی ماہرین کے مطابق بریسٹ کینسر کی ایک بڑی وجہ غلط طرز زندگی ہے۔اگر خوراک متوازن نہیں تو یہ بھی کینسر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک بہت بڑی وجہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن ہے اور تنہائی کا شکار خواتین کو یہ مرض لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے میموگرافی سے سینے میں پیدا ہونے والی گلٹیوں کے بڑے ہونے سے پہلے ہی اس کی تشخیص کر لی جاتی ہے۔میموگرافی چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے مخصوص ایک ایسا ایکسرے ہوتا ہے جو کہ سینے میں پیدا ہونے والی گلٹیوں کی تشخیص کر لیتا ہے اور یوں اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔خواتین کے لیے بریسٹ کینسر کی وجہ سے موت سے بچنے کے لیے مؤثر ترین طریقہ باقاعدہ سکریننگ ہے۔پاکستان میں متعدد طبی مراکز میں اس مرض کی مفت تشخیص کی جاتی ہے۔ یہ مفت سکریننگ اور میموگرافی 40 سال سے زائد عمر کی خواتین کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ ان مراکز میں بائیوپسی کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔ایسی خواتین جن کی عمر 50 سال یا اس سے زیادہ ہو ان کو مکمل طور پر سالانہ سکریننگ کروانی چاہیے۔ اور ان کے ساتھ ساتھ وہ خواتین جو اپنی چھاتی میں کسی قسم کی گلٹی محسوس کریں تو فوراً کسی مستند ریڈیالوجسٹ سے رابطہ کریں تاکہ بروقت تشخیص سے بیماری اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔نوجوان لڑکیوں میں ابتدائی ٹیسٹ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ایم آر آئی بھی کروائی جاتی ہے۔

جب یہ غیر نتیجہ خیز رہیں تو مائکروسکوپک تجزیہ کے لئے گلٹی میں موجود ٹشوکا نمونہ نکالا جا سکتا ہے تاکہ تشخیص کرنے میں مدد مل سکے۔ اور اضافی ٹیسٹ جو خصوصی حالات میں انجام دئے جاسکتے ہیں (جیسے الٹراساؤنڈ یا ایم آر آئی ) کے ذریعہ جسمانی معائنہ کے نتائج اکثر حتمی تشخیص اور ابتدائی علاج کے کے لئے کافی ہیں۔ ایک بار تشخیص ہوجانے کے بعد ، یہ جانچنے کے لئے مزید ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں کہ آیا کینسر چھاتی سے باہر پھیل گیا ہے اور کون سے علاج مؤثر ہونے کا زیادہ امکان ہے۔

چھاتی کے کینسرکی درجہ بندی کئی طرح سےکی جاتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک تشخیص اور علاج کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔
چھاتی کےکینسرکی عام طور پر ہسٹولوجیکل درجہ بندی کی جاتی ہے۔ زیادہ تر چھاتی کے کینسر نالیوں یا لابیولز میں ہوتے ہیں ، اور ان کینسرز کو ڈکٹل یا لبلولر کارسنوما کہا جاتا ہے۔ جو کینسر مقامی طور پر محدود ہوں ان کوکارسنوما سیٹوsitu)کہتے ہیں۔
TNM سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے چھاتی کے کینسر کا مرحلہ ٹیومر (T) کی جسامت پر منحصر ہوتا ہے ، ٹیومر بغلوں میں لمف نوڈس (N) میں پھیل گیا یا نہیں ٹیومر میٹاسٹیٹ (M) (یعنی جسم کے زیادہ دور کے حصہ تک پھیلتا ہے۔ بڑے سائز ، نوڈز تک پھیلاؤ ، اورمیٹا سٹیسز خطرناک تشخیص کو ظاہر کرتا ہے۔

بریسٹ کینسر کے مختلف مراحل کون سے ہیں؟:
اس کے چار مختلف مراحل ہیں، پہلے دونوں بڑی حد تک قابلِ علاج ہیں تاہم تیسرے اور چوتھے مرحلے پر یہ بیماری خاصی پیچیدہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کینسر کا تعلق دراصل جینیاتی طور پر اس بیماری کی خلاف مدافعت کی کمزوری ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اگر ماں کو بریسٹ کینسر ہے تو بیٹی کو بھی ہو سکتا ہے۔

بریسٹ کینسر کی پہلی اسٹیج میں تو چھاتی میں گلٹی بنتی ہے جس کا سائز چھوٹا ہوتا ہے اور اس میں درد ہوتا ہے۔ پہلی اسٹیج یہ تعین کرتی ہے کہ اب کینسر بافتوں کو آزادانہ طور پر نقصان پہنچا رہا ہے۔دوسرے مرحلے میں یہ گلٹی نہ صرف بڑی ہوتی ہے بلکہ جڑیں بھی پھیلتی ہیں، یہ لِمف نوڈز میں داخل ہو گیا ہے اور اس کا سائز ایک اخروٹ یا لیموں جتنا ہے۔

جس کے بعد یہ تیسرے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں اب کینسر آپ کے کم از کم نو لمف نوڈز میں آ چکا ہے جو گردن کی ہڈی اور بغل تک کا حصہ ہے۔ اب یہ سینے میں بیرونی جلد کے قریب ہے۔’اگر نِپل سے دودھ کے علاوہ کسی بھی قسم کا ڈسچارج ہو تو یہ بھی ممکنہ طور پر کینسر ہو سکتا ہے اور اس کی تصدیق کے لیے ہسپتال سے ٹیسٹ کرانے کی فوری ضرورت ہے۔چوتھے اور آخری مرحلے میں کینسر لمف نوڈز سے نکل کر اب چھاتی کے گرد دیگر حصوں تک پھیل چکا ہے۔ یہ سب سے زیادہ ہڈیوں، پھیپھڑوں، جگر اور دماغ تک آ گیا ہے۔ اس سٹیج میں طبی ماہرین کے مطابق مریضہ کی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔

جن لوگوں کو کینسر کی تشخیص ہوئی ہے، ان میں بہت سارے علاج استعمال کیے جاسکتے ہیں ، جن میں سرجری ، تابکاری تھراپی ، کیموتھریپی ، ہارمونل تھراپی شامل ہیں۔چھاتی کو بچانے والی سرجری سے لے کر ماسٹکٹومی تک سرجری کی اقسام مختلف ہوتی ہیں۔ علاج کا مقصد زیادہ تر معیار زندگی اور راحت کو بہتر بنانا ہے۔سرجر ی۔عام طور پر بریسٹ کینسر کا علاج اس کے مراحل دیکھ کر کیا جاتا ہے۔اگر بریسٹ کینسر پہلی سٹیج میں ہے تو لمپ یا گلٹی نکالی جاتی ہے، اس عمل کو لمپیکاٹومی کہتے ہیں۔کینسر اگر دوسری سٹیج میں داخل ہو چکا ہے تو اس صورت میں بھی اس لمپ کا سائز بڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں بھی لمپیکاٹمی کی جاتی ہے۔پہلی اور دوسری اسٹیج میں بیشتر مریضوں کو کیمو تھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی، جبکہ اس بات کے 90 سے 95 فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ کم از کم پانچ سال تک ایسا کوئی لمپ نہیں بنے گا۔چوتھے اور آخری مرحلے میں کینسر لمف نوڈز سے نکل کر پستان کے گرد دیگر حصوں تک پھیل چکا ہے۔ یہ سب سے زیادہ ہڈیوں، پھیپھڑوں، جگر اور دماغ تک آ گیا ہے۔ اس سٹیج میں طبی ماہرین کے مطابق مریضہ کی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایک بار ٹیومر نکل جانے کے بعد ، اگر عورت چاہے تو ، چھاتی کی تعمیر نو سرجری ، ایک قسم کی پلاسٹک سرجری ، کوانجام دیا جاسکتا ہے۔ متبادل کے طور پر ، خواتین ، چھاتی کے مصنوعی اعضاء کو لباس کے نیچے چھاتی کی نقل کے طور استعمال کرتی ہیں ۔
سرجری کے بعد اور اس کے علاوہ استعمال ہونے والی دوائیوں کو ضمنی تھراپی کہا جاتا ہے۔ سرجری سے قبل کیموتھریپی یا دیگر اقسام کی تھراپی کو neoadjuvant therapyتھراپی کہا جاتا ہے۔ اسپرین چھاتی کے کینسر سے اموات کو کم کرسکتی ہے۔فی الحال چھاتی کے کینسر کے علاج کے لیے دوائیوں کے تین اہم گروپ استعمال ہورہے ہیں۔

ہارمون کو مسدود کرنے والے ایجنٹ ، کیموتھریپی ، اور مونوکلونل اینٹی باڈیز۔
ہارمونل تھراپی:
کچھ چھاتی کے کینسر کو بڑھتے رہنے کے لئے ایسٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی نشاندہی ان کی سطح پر ایسٹروجن ریسیپٹرزاور پروجیسٹرون رسیپٹرزکی موجودگی سے ہوسکتی ہے (بعض اوقات اسے ہارمون ریسیپٹر کہا جاتا ہے)۔ ان کینسرز کا علاج ایسی دوائیوں سے کیا جاسکتا ہے جو رسیپٹرز کو بلاک کر دیتی ہیں ،

کیموتھریپی:
کیمو تھراپی بنیادی طور پر چھاتی کے کینسر کے معاملات میںدو تا چار مراحل میں استعمال کی جاتی ہیں ، اور یہ خاص طور پر منفی ایسٹروجن ریسیپٹر بیماری میں فائدہ مند ہے۔ کیموتھریپی دوائیوں کا علاج عام طور پر 3-6 مہینوں میں ہوتا ہے۔ کیموتھریپی کی زیادہ تر دوائیں تیزی سے بڑھتی ہوئی یا تیزی سے تقسیم ہونے والے کینسر کے خلیوں کو تباہ کرکے کام کرتی ہیں ۔ تاہم ، دوائیوں سے تیزی سے بڑھتے ہوئے معمول کے خلیوں کو بھی نقصان ہوتا ہے ، جو سنگین ضمنی اثرات کا سبب بن سکتے ہیں۔ دل کے پٹھوں کو پہنچنے والا نقصان سب سے خطرناک پیچیدگی ہے ۔

تابکاری:
ریڈیو تھراپی ٹیومر کی سرجری کے بعد دی جاتی ہے ، تاکہ مائکروسکوپک ٹیومر خلیوں کو جو سرجری سے بچ چکے ہیں،ختم کیا جا سکے ۔تابکاری تھراپی بیرونی بیم ریڈیو تھراپی کے طور پر یا اندرونی ریڈیو تھراپی کی طرح کی جاسکتی ہے۔ چھاتی کے کینسر کے آپریشن کے بعد روایتی طور پر ریڈیو تھراپی دی جاتی ہے۔ چھاتی کے کینسر پر آپریشن کے وقت تابکاری بھی دی جاسکتی ہے۔ جب تابکاری درست خوراک میں پیش کی جاتی ہے تو اس سے کینسر کے دوبارہ ہونے والےخطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔

فالو اپ کیئر۔چھاتی کے کینسر کے ابتدائی علاج کے بعد نگہداشت ، جسے بصورت دیگر ‘فالواپ کیئرکہا جاتا ہے ، بغیر علامات والےمریضوںمیں باقاعدگی سے لیبارٹری ٹیسٹ شامل کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہےتا کہ کینسر کے دوسرے اعضا میں پھیلاو کو روکا جا سکے۔ ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ باقاعدگی سے جسمانی چیک اپ اور سالانہ میموگرافی پر مشتمل فالو اپ پروگرام اتنے ہی موثر ہیں جتنا کہ تجربے کی ابتدائی نشاندہی ، مجموعی طور پر بقا اور زندگی کے معیار کے لحاظ سے لیبارٹری ٹیسٹ پر مشتمل زیادہ گہرائی والے پروگرام ہوا کرتے ہیں۔کثیر الضابطہ بحالی پروگرام ، جن میں اکثر ورزش ، تعلیم اور نفسیاتی مدد شامل ہیں ، چھاتی کے سرطان سے متاثرہ افراد میں عملی صلاحیت ، نفسیاتی ایڈجسٹمنٹ اور معاشرتی شراکت میں بہتری پیدا کرسکتی ہیں۔

حاملہ عورت میں نئے کینسر کی تشخیص کرنا مشکل ہے ، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عام طور پر کسی بھی علامت کو حمل سے وابستہ ایک عام تکلیف سمجھا جاتا ہے۔عام طور پر علاج غیر حاملہ خواتین کے لئے ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔تاہم ، حمل کے دوران عام طور پر تابکاری سے گریز کیا جاتا ہے ۔ حمل کے آخر میں کینسر کی تشخیص ہونے کی صورت میں کچھ صورتوں میں ، کچھ یا تمام علاج پیدائش کے بعد تک ملتوی کردیئے جاتے ہیں۔ حمل کے دوران عام طور پر سرجری کو محفوظ سمجھا جاتا ہے ، لیکن کچھ دوسرے علاج ، خاص طور پر کچھ کیمو تھراپی کی دوائیں پہلے سہ ماہی کے دوران دیئے جانے سے ، پیدائشی نقائص اور حمل ضائع ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔تابکاری کے علاج سے ماں کو اس کے بچے کو دودھ پلانے کی صلاحیت میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے دودھ پیدا کرنے کی اس چھاتی کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور بریست کی انفکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ نیز ، جب پیدائش کے بعد کیموتھریپی دی جارہی ہے تو ، بہت ساری دوائیں دودھ سے بچے کو پہنچتی ہیں ، جس سے بچے کو نقصان ہوسکتا ہے۔چھاتی کے کینسر سے بچ جانے والوں میں مستقبل میں حمل کے بارے میں ، اکثر کینسر دوبارہ ہونے کا خدشہ رہتا ہےپیدائش پر قابو،چھاتی کے کینسر سے بچ جانے والے افراد میں ، غیر ہارمونل پیدائشی کنٹرول کے طریقے جیسے تانبے کے انٹراٹورین ڈیوائس (IUD) کو پہلے لائن کے اختیارات کے طور پر استعمال کیا جانا چاہئے۔گولیوں کے ساتھ IUD کینسر کے دوبارہ ہونے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے ۔

روک تھام:
صحت مند وزن کو برقرار رکھنے ، الکحل کے استعمال کو کم کرنے ، جسمانی سرگرمی میں اضافہ ، اور دودھ پلانے سے خواتین چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کرسکتی ہیں۔ جسمانی سرگرمی چھاتی کے کینسر کے خطرے کو تقریبا 14 فیصد تک کم کرتی ہے۔ باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی کرنے اور موٹاپے کو کم کرنے کی حکمت عملی سے دوسرے فوائد بھی ہوسکتے ہیں ، جیسے قلبی امراض اور ذیابیطس کے کم خطرات وغیرہ۔ لوگوں کو سبزیوں ، پھلوں ، اناج کی زیادہ مقدار لینا چاہئے۔ پھلوں کی زیادہ مقدار سے چھاتی کے کینسر کے خطرہ میں 10٪ فیصدکمی واقع ہوئی ہے۔اومیگا 3اور سویا پر مبنی کھانے سے بھی خطرہ کم ہوسکتا ہے۔
چھاتی کے کینسر کی وجوہات میں اپنے پستان کی جسامت سے کم سائز کے بریزئیر کا استعمال جس کے مسلسل استعمال سے ان کے اندر زخم بن جاتے ہیں ۔ سیاہ رنگ کے بریزئیر کے علاوہ نائلون کا برئزیر بھی اس کا سبب بن سکتا ہے ۔ اسی طرح اپنے بچوں کو دودھ نہ پلانا بھی اس کی ایک بہت بڑی وجہ ہوتی ہے ،خواتین کو چاہیے کہ رات کو سوتے وقت اپنے بریزئیر اتار دیا کریں ۔بریزئیر ڈھیلا پہننے کے ساتھ قمیض بھی تنگ نہ پہنیں ۔ڈاکٹر ز کے مطابق رات کوبریزئیر اتار کر نہ سونا،بریزئیر کا تنگ ہونا اور زیر جامہ کا تنگ پہننا ،اس کی صفائی کا خیال نہ رکھنا خود کشی کے مترادف ہے ۔جو خواتین اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلاتی ہیں، ان کو بریسٹ کینسر کم ہوتا ہے ۔ بہ نسبت ان خواتین کے جو بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں ۔کینسر سے محفوظ رہنے کے لیے خواتین کو چاہیے کہ اپنے شیر خوار بچوں کو اپنا دودھ پلائیں ۔

’اگر آپ ایک ماں ہیں اور آپ کو بریسٹ کینسر یا چھاتی کا کینسر ہوا ہے تو آپ اپنی بیٹیوں کی سکیننگ اور الٹرا ساؤنڈ ضرور کروائیں کیونکہ اب آپ کی بیٹی کو بھی کینسر ہونے کا قوی امکان ہے۔ خواتین کو قائل کیا جائے کہ وہ اپنے ٹیسٹ ضرور کروائیں یا کم از کم خود اپنا معائنہ کریں کہ کہیں وہ بریسٹ کینسر کی جانب تو نہیں بڑھ رہیں۔پاکستان میں آج بھی بریسٹ کینسر کی پہلی سٹیج پر تشخیص چار فیصد سے بھی کم ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون کو بریسٹ کینسر کا خطرہ ہے۔یہ مرض عام طور پر 50 سے 60 برس کی عمر کی عورتوں میں پایا جاتا تھا، لیکن اب کم عمر خواتین بھی اس بیماری میں مبتلا ہو رہی ہیں۔ خواتین چھاتی میں ہونے والی کسی بھی معمولی تبدیلی کو نظر انداز نہ کریں اور کسی مستند ڈاکٹر کو دکھائیں۔یہ بیماری ہیریڈیٹری ہے، یعنی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ’یہ بہت ضروری ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں سے اس خطرناک مرض سے متعلق بات چیت کریں اور باقاعدگی سے چیک اپ کروانے کی عادت ڈالیں۔
پاکستان میں کم از کم 40 ہزار خواتین کی ہر سال چھاتی کے کینسر سے موت ہوتی ہے۔ یہ تعداد اصل تعداد سے کہیں کم ہے کیونکہ کینسر رجسٹر نہ ہونے کے باعث اصل تعداد کا علم نہیں ہوتا‘۔ملک بھر میں سالانہ 90 ہزار کیسز رپورٹ کیے جاتے ہیں۔بریسٹ کینسر کی جلد تشخیص سے جان بچنے کا 90 فیصد امکان ہے۔دس سال پہلے محض 2.3 فیصد خواتین بریسٹ کینسر کو جلد رپورٹ کرواتی تھیں جبکہ اب بھی یہ شرح 10 فیصد سے کم ہے۔پاکستان میں ایک جو پریشان کن بات یہ ہے کہ نوجوان( 18 سے 20 سال) کی لڑکیاں اس سرطان میں زیادہ مبتلا ہو رہی ہیں۔ اور اس عمر میں کینسر ہونے میں شرح اموات بہت زیادہ ہوتی ہے۔پاکستان میں 70 فیصد خواتین کینسر کی تیسری یا چوتھی سٹیج پر ڈاکٹر سے رجوع کرتی ہیں۔ اول تو چھاتی کے کینسر سے ہونے والی اموات یا اس کینسر میں مبتلا خواتین کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

کچھ ایسی وہمی باتیں معاشرے میں پائی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، جیسا کہ بہت سے لوگ اسے وبائی مرض سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یہ مریض کو چھونے یا اس کے پاس جانے سے کسی دوسرے کو بھی ہو جائے گا ایسا بلکل نہیں ہےبہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بریسٹ کینسر میں مبتلا خاتون ناپاک یا اچھوت ہے جس کی بنا پر نہ تو مریض کا تیار کردہ کھانا کھاتے ہیں اور نہ ہی اس کے قریب جاتے ہیں جو کہ انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے جس کی حوصلہ شکنی لازمی ہے۔۔اس کے علاوہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ پرفیوم، ڈیوڈرنٹ، پسینہ خشک کرنے والے اسپرے، انڈرگارمنٹس، کیفین، میموگرامز، پلاسٹک کے بنے ہوئے کھانے کے برتن، مائیکرو ویو اوون اور موبائل فونز بھی بریسٹ کینسر کا سبب بنتے ہیں تو یہ سب سراسر وہم ہے، البتہ ان چیزوں کے استعمال کے بعض منفی نتائج سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان کی بہت سی خواتین صرف اس لیے اس کینسرسے موت تک پہنچ جاتی ہیں کیونکہ وہ بر وقت تشخیص نہیں کروا پاتیں، تشخیص میں تاخیر کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں۔اول یہ کہ پاکستانی خواتین میں بریسٹ کینسر کی آگاہی نہیں ہوتی، انہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ چھاتی کا سرطان کیا ہے اس کی وجوہات کیا ہیں اور اس کی علامات کا بھی علم نہیں ہوتا۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں چھاتی کے سرطان کی علامات کو جان بھی لیتی ہے تو وہ پہلے تو اپنے خاندان والوں کو بتاتی نہیں اور چھپاتی ہے۔ اگر خاندان والوں کو بتا بھی دیتی ہے تو خاندان والے اس کو باعث شرم سمجھتے ہیں اور علاج نہیں کراتے۔دوئم خواتین کو ایسے سینٹرز کی ضرورت ہوتی ہے جہاں پہنچنا آسان ہو اور جلد از جلد ان کا ٹیسٹ ہو جائے اور مزید یہ کہ تشخیص کنندہ کا عورت ہونا لازمی تصور کیا جاتا ہے، ان تمام شرائط کا بروقت پورا نہ ہونا کینسر کی تشخیص میں رکاوٹ بنتا ہے۔

رحم کا سرطان کیا ہے؟
ُیہ اُس وقت شروع ہوتا ہے جب رحم میں موجود خلیے بے ہنگم انداز میں بڑھنا شروع کردیتے ہیں اور بڑھتے بڑھتے ایک رسولی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں (جسے گلٹی بھی کہا جاتا ہے)۔ جیسے جیسے رسولی بڑھتی ہے تو ّ خلیے آخر کار جسم کے دوسرے حصوں تک پھیل سکتے ہیں اور زندگی کے لئےخطرہ بن سکتے ہیں۔ّ آپ کا رحم بچہ دانی (کوکھ)کا سب سے زیریں حصہ ہے اور یہ آپ کی فرج ّ کے اوپری حصے میں پایا جاتا ہے۔
کیا چیز رحم کے سرطان کا باعث بنتی ہے؟ تقریبا ً تمام تر رحم کے سرطان ایک ایسے وائرس کی وجہ سے ہوتے ہیں جسےانسانی پیپیلوماوائرس (مختصرا ایچ پی وی)کہا جاتا ہے۔
ّ ایچ پی وی بہت عام وائرس ہے – زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں زیادہ ترلوگوں میں یہ سراہت کرجائے گا۔ یہ کسی مرد یا عورت کیساتھ کسی قسم کےجنسی عمل کے نتیجے میں ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل ہو سکتا ہے۔ ایچ پی ُ وی کی بہت سی اقسام ہیں لیکن اُن میں سے صرف چند ایک ہی سرطان پر منتہج ہوتی ہیں
ایچ پی وی کی جو اقسام رحم کے سرطان کا باعث بنتی ہیں وہ کسی قسم کی عالمات ظاہر کیے بغیر آپ کے رحم میں سراہت کرسکتی ہیں۔ زیادہ تر کیسوں میں آپ کےِ علم میں آئے بغیر کہ آپ ا ِ س میں مبتلا تھے، آپ کا مدافعتی نظام اس وائرس سےچھٹکارا حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن بسا اوقات، ایچ پی وی کی انفیکشن کی وجہ سےِ آپ کے رحم میں خلیے خالف معمول شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
ِ عام طور پر، آپ کا جسم خالف معمول خلیوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے اورآپ کا رحم معمول کی حالت کی جانب لوٹ جاتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا نہیں ہوتا ِ اور خالف معمول خلیے آگے جاکر سرطان میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
رحم کی اسکریننگ کیا ہے؟
رحم کی (جسے ‘سمیئر ٹسٹ بھی کہا جاتا تھا)میں آپ کے رحم کی سطح سے خلیوں کا چھوٹا سا نمونہ لیا جاتا ہے۔ یہ نمونہ لیباریٹری میں بھیجاِ جاتا ہے اور اس کا جائزہ خوردبین کے نیچے رکھ کر یہ جاننے کے لئے لیا جاتاِ ہے کہ کہیں کسی قسم کے خالف ِ معمول خلیے تو موجود نہیں ہیں۔ خالف معمول خلیے سرطان نہیں ہیں لیکن یہ علاج نہ ہونے کی وجہ سے سرطان میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔
آپ کے ٹیسٹ کے نتیجے کی مناسبت سے آپ کا نمونہ انسانی پیپیلوماوائرس (ایچ ُ پی وی ) کی اُن اقسام کے لئے بھی ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے جو رحم کے سرطان کا باعث بنتی ہیں۔
اگلے مرحلے میں ممکن ہے کہ آپ کے رحم کا زیادہ باریک بینی سے جائزہ لینے کے لئے آپ کو ایک اور ٹیسٹ (جسے کولپوسکوپی کہا جاتا ہے)کروانے کے لئے کہا جائے اگر کولپوسکوپی کرنے والے فرد کو خالف معمول خلیے ملتے ہیں تو وہ آپ کو اُن خلیوں کو نکلوانے کی تجویز دیں گے جوکہ عام طورپرایک اور کولپوسکوپی کے دوران کیاجاتا ہے۔ اس طرح اسکریننگ سے رحم کے سرطان کو ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔

اگر میں اسکریننگ کروانے کا انتخاب کرتی ہوں تو کیا ہوگا؟
آپ کی اپائٹمنٹ سے قبل:
ِ رحم کی اسکریننگ عام طور پر کوئی خاتون نرس یا ڈاکٹر کرتی ہے۔ اگر آپ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ کوِ ِ ئی خاتون یہ ٹیسٹ کرے تو آپ اپائٹمنٹ بناتے وقت اسکے بارے میں بات کر سکتی ہیں۔
آپ کی اپائٹمنٹ اس دن کے لئے ہونی چاہیے جب آپ حیض کی حالت میں نہ ہوں۔
اگر آپ کو ماہواری نہیں ہوتی تو آپ کی اسکریننگ کسی وقت بھی ہوسکتی ہے۔
ڈھیلی ڈھالی اسکرٹ (پینٹ یا کسی ہوئی اسکرٹ کی بجائے)پہننے سے ہوسکتا ہےِ کہ ٹیسٹ کے لئے تیار ہونے میں مدد ملے۔ برائے مہربانی جب آپ کا ٹیسٹ ہو تو اس سے دو دن پہلے فرج کے لئے کسی قسم کی ادویات، چکنا کرنے واال مواد یا کریم ِ استعمال نہ کریں کیونکہ ان سے وہ نمونہ متاثر ہوسکتا ہے جو آپ کی نرس یا ڈاکٹرنے لیا ہو۔
اگر آپ حاملہ ہیں، اگر آپ نے رحم براری کروائی ہے یا کوئی اور وجہ ہے جس کی بنا پر آپ سمجھتی ہیں کہ رحم کا اسکریننگ ٹیسٹ کروانا آپ کے لئے مشکل ہوگا تو برائے مہربانی اپنی نرس یا ڈاکٹر سے بات کریں۔ وہ آپ کے ہر قسم کے سوال کاجواب دینے اور خدشات دور کریں گے اور آپ کے لئے مناسب انتظامات کریں گے۔
آپ کی اپائٹمنٹ کے دوران:
نرس یا ڈاکٹر آپ کو کمر سے نیچے واال لباس اتارنے کے لئے کہے گی اور ُ آپ کو بستر پر ایسی حالت میں لیٹنے کے لئے کہے گی کہ آپ کے گھٹنے مڑےہوئے ہوں اور آپ کی ٹانگیں کھلی ہوئی ہوں۔ایک آلہ جسے سپیکیولم کہا جاتا ہے کو آپ کی فرج میں داخل کیا جائے گا اور
ِ پھر ا ِ سے آرام سے کھولنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ اس سے ڈاکٹر یا نرس آپ کا رحم دیکھ سکے گی۔پھر وہ آپ کے رحم سے نمونہ لینے کے لئے ایک چھوٹا سا برش استعمال کریں گی۔اصل ٹیسٹ میں ایک یا دو منٹ لگتے ہیں۔ پوری اپائٹمنٹ میں عام طور پر 10 منٹ لگتے ہیں۔
رحم کی اسکریننگ کروانا کیسا محسوس ہوتا ہے؟
آپ کو کچھ بے آرامی محسوس ہو گی لیکن یہ جلد ہی رفع ہوجائے گی۔ اگر یہِ عمل تکلیف دہ محسوس ہو تو نرس یا ڈاکٹر سے بات کریں اور وہ اسے آپ کےلئے زیادہ آرام دہ بنانے کی کوشش کرے گی۔
رحم کی اسکریننگ کا ٹیسٹ کروانا
رحم کی اسکریننگ کے نتائج
آپ کو ٹیسٹ کروانے کے بعد 2 ہفتوں کے اندر ایک خط موصول ہوگا جو آپ کو آپ کے نتیجے سے آگاہ کرے گا۔
رحم کی اسکرینگ کروانے والی سو میں تقریبا چورانوے خواتین کو معمول کا نتیجہ ملے گا۔ اگر آپ کو معمول کے مطابق نتیجہ ملتا ہے تو آپ کو اگلے اسکریننگ ٹیسٹ سے پہلے رحم کا سرطان ہونے کا بہت کم خطرہ ہے-
ِ کچھ خواتین کے نمونوں میں خالف معمول خلیے ہوں گے
رحم کی اسکریننگ کروانے والی سو میں سے چھ خواتین ِ خالف ِ معمول خلیے موجود ہوں گے۔ خالف معمول خلیے سرطان نہیں ہیں لیکن
بعض اوقات علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ سرطان میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔
ِ معولی سے خلاف معمول خلیے
ِ خالف ِ معمول خلیوں والی زیادہ تر خواتین میں صرف معمولی سے خلاف معمولِ خلیے ہوں گے۔ معمولی سے خالف معمول خلیے دو قسم جنہیں معمولی تبدیلیاں اور کم درجے کے ڈسکری اوسس کہا جاتا ہے ۔
اگر آپ میں معمولی سے خالف معمول خلیے موجود ہوں تو آپ کا نمونہ انسانی پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی)کی اقسام کے لئے ٹیسٹ کیا جائے گا جو کہ رحم کےسرطان کا باعث بن سکتے ہیں۔
اگر آپ کو ایچ پی وی انفیکشن نہیں ہے تو اگلی اسکریننگ سے پہلے آپ کو رحم کاسرطان ہونے کا کم درجے کا خطرہ ہے۔ آپ کی عمر کی مناسبت سے آپ کو حسب معمول اسکریننگ کے لئے 3 یا 5 سال کے بعد دوبارہ لیا جائے گا۔ اگر آپ کو ایچ پی وی انفیکشن ہے تو آپ کے رحم کا زیادہ باریک بینی سے جائزہ لینے کے لئے آپ کا ایک اور ٹیسٹ (جسے کولپو سکوپی کہا جاتا ہے) کیا جائے گا۔
ِ انتہائی خالف معمول خلیے
ِ چند خواتین کے نمونے میں انتہائی خالف معمول خلیے موجود ہوں گے۔ِاسے اونچے درجے کے ڈسکری اوسس کے نام سے موصوم کیا جاتا ہے۔ِ اگر آپ کے خلیے انتہائی خالف معمول ہوں گے تو آپ کے رحم کا زیادہ باریک بینی سے جائزہ لینے کے لئے آپ کو کولپوسکوپی کروانے کے لئے کہا جائے گا۔
کولپوسکوپی کیا ہے؟
کولپوسکوپی ایک ایسا ٹیسٹ ہے جو یہ دیکھنے کے لئے کیا جاتا ہے کہ آپ کے رحم ّ کے کتنے حصے میں خالف معمول خلیے ہیں اور یہ کسی حد تک سنجیدہ نوعیت کےہیں۔ یہ عام طور پر ہسپتال میں بیرونی مریضوں کے کلینک میں کیا جاتا ہے۔ کوئی اسپیشلسٹ محدب عدسے اور روشنی (جسے کولپوسکوپ کہتے ہیں)کی مدد سے آپ کے رحم کا باریک بینی سے جائزہ لے گا۔ وہ آپ کے رحم کے غیر معمولی نظر آنے
ّ والے حص ِ وں سے چھوٹا نمونہ (بائیوپسی)لیں گے۔ اگر خالف معمول خلیے سنجیدہِ نوعت کے ہوئے تو آپ کو ان خلیوں کو نکلوانے کے لئے علاج کی ضرورت ہوسکتیِ ہے۔ اس سے رحم کے سرطان سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
کولپوسکوپی کے نتائج
ِ آپ کی کولپو سکوپی سے یہ بات عیاں ہوسکتی ہے کہ آپ میں خالف معمول خلیے ہیں جن کا نکالا جانا لازمی ہے- ِ اگر پتہ چلتا ہے کہ آپ میں سنجیدہ نوعیت کے خالف ِ معمول خلیے ہیں تو ان کو نکالا جاسکتا ہے۔ یہ عام طور پر کولپوسکوپی کے دوران، ہسپتال میں بیرونی
مریضوں کے کلینک میں کیا جاتا ہے۔کولپوسکوپی کروانے والی آدھی خواتین کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ ان میں ِ خالف معمول خلیے ہیں جن کو نکالاجانا چاہیے۔آپ کی کولپوسکوپی دکھاسکتی ہے کہ آپ کو سرطان ہے
شاذو نادر ہی اسکریننگ کے ذریعے خواتین میں سرطان کی تشخیص ہوگی۔ اسکریننگ کے ذریعے پکڑا جانے والےسرطان عام طور پر ابتدائی مراحل پر ہوتا ہے۔ خواتین جن کا رحم کا سرطان ابتدائی مراحل میں ہوتا ہےاُن خواتین کے مقابلے میں بچنے کا
زیادہ امکان ہوتا ہے جن کو نسبتا اگلے مرحلے کے سرطان ہوں
فیصلہ کرنا – -رحم کی اسکریننگ کے ممکنہ فوائد و خطرات
یہ اختیار آپ کو حاصل ہے کہ آپ رحم کی اسکریننگ کروائیں یا نہ کروائیں۔بہت ساری دوسری وجوہات ہیں جن کی بنا پر خواتین فیصلہ کرتی ہیں کہ آیا وہ اسکریننگ کروائیں یا نا کروائیں۔ فیصلہ کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے لئے ہم نے ممکنہ فوائد اور خطرات کے بارے میں معلومات شامل کردی ہے۔
رحم کی اسکریننگ کے کیا فوائد ہیں؟
رحم کی اسکریننگ رحم کے سرطان سے بچنے میں مدد کرتی ہے۔ یہ اسکریننگ کروانے والی سو خواتین میں سے تقریبا ً ایک خاتون کو سرطان ہونے سے بچاتی ہے-رحم کی اسکریننگ ہر سال برطانیہ میں رحم کے سرطان سےپانچ ہزار خواتین کو بچاتی ہے

رحم کی اسکریننگ کے خطرات کیا ہیں؟
رحم کی اسکریننگ کے خطرات بذات خود اسکریننگ کی بجائے کولپوسکوپی کےِ دوران خالف معمول خلیوں کو نکالنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ بعض اوقات خالف معمول ِ خلیوں کو نکالنے کے نتیجے میں جریان ِ خون یا انفیکشن ہوسکتی ہے اور اس سےِ مستقبل میں ہونے والے حمل بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ وہ خواتین جو خالف معمول خلیے نکالنے کے بعد حاملہ ہوتی ہیں اُن میں عام طور پر بچے کی 1 یا 2 ماہ قبل ازمدت والدت کا امکان ذرا زیادہ ہوتا ہے۔ِ خالف معمول خلیے نکلوانے والی ہر عورت میں آگے جا کر سرطان نہیں ہوتا۔ِ لیکن ہر فرد جس میں سنجیدہ نوعت کے خالف معمول خلیے موجود ہوں، اُن کو علاج کروانے کے لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کہنا مشکل ہے کہ کس کو رحم کاسرطان ہوگا اور کس کو نہیں۔
رحم کے سرطان کی علامات کیا ہیں؟
ِ سرطان آپ کے باقاعدہ اسکریننگ ٹیسٹوں کے درمیان ہوسکتا ہے۔ اس لئے یہ انتہائی اہم ہے کہ آپ ہر اُس چیز پر نظر رکھیں جو آپ کے لئے غیر معمولی ہو، خاص طور پر مندرجہ ذیل پر:
دو ماہواریوں کے درمیان، جنسی مباشرت یا
سن یاس یعنی حیض کا زمانہ گزرنے کے بعد جریان خون۔
• فرج سے رطوبتوں کا اخراج۔
• جنسی مباشرت کے دوران درد یا بے آرامی۔
ِ اگر آپ میں ان میں سے کوئی ایک تبدیلی بھی وقوع پذیر ہو تو جتنی جلدممکن ہوسکے ڈاکٹر سے ملیں۔ اپنی رحم کی اگلی اسکریننگ کی اپائٹمنٹ کا انتظار مت کریں۔
ِ عام طور پر ان علامات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ سرطان میں مبتلا ہیں لیکن اگرپتہ چلتا ہے کہ آپ کو سرطان کا مرض لاحق ہے تو جلد تشخیص و علاج ہونے کامطلب ہے کہ آپ کے بچنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
میرے رحم کے سرطان میں مبتلا ہونے کےامکانات پر کیا چیز اثرانداز ہوتی ہے؟
رحم کی اسکریننگ کروانے سے آپ کے رحم کے سرطان میں مبتلا ہونے کےامکانات کم ہوجاتے ہیں۔
رحم کے سرطان کے تقریباً تمام کیس ایچ پی وی انفیکشن کی وجہ سےہوتے ہیں۔ ایچ پی وی کسی مرد یا عورت کے ساتھ کسی قسم کے جنسی عمل کے نتیجے میں دوسرے لوگوں کو منتقل ہوسکتا ہے۔
اُن خواتین و حضرات کے اندر ایچ پی وی انفیکشن ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جن کے زیادہ جنسی ساتھی رہے ہوں۔ لیکن ایچ پی وی اتنا عام ہے کہ زیادہ تر لوگِ اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی اس میں مبتلا ہوں گے۔ ایچ پی وی پورے کے پورے اعضائے تناسل کی جلد پر موجود ہوتا ہے اور یہ کسی بھی قسم کے جنسی عمل سے ِ پھیل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کنڈوم آپ کو ایچ پی وی انفیکشن ہونے سےہمیشہ محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
تمباکو نوشی سے رحم کے سرطان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ یہ آپ کے جسم کےلئے ایچ پی وی انفیکشنوں سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل کر دیتی ہے۔ بارہ سے تیرہ سال کی عمر کی لڑکیوں کو رحم کے سرطان کا باعث بننے والے ایچ پی وی کےخلاف اب حفاظتی ٹیکے لگوانے کے لئے کہا جاتا ہے۔
اسکریننگ کے بعد میرے نمونے کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟
آپ کا اسکریننگ کا نمونہ لیبارٹری کم سے کم 10 سال تک رکھے گی۔ آپ کانتیجہ ایک قومی محفوظ کمیوٹر کے نظام میں بھی رکھا جائے گا تاکہ این ایچ ایس ِ آپ کے تازہ ترین نتائج کا پہلے والے نتائج سے موازنہ کرسکے اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ سروس اتنی اچھی ہے جتنی کہ یہ ممکنہ حد تک ہوسکتی ہے اوراسپیشلسٹ عملے کے ہنروں کو نکھارنے کے لئے آپ کے نتائج کو ہیلتھ سروس میں
دوسری جگہوں پر کام کرنے واال عملہ بھی دیکھ سکتا ہے۔

پھیپھڑوں کا کینسر:
آج کل کے آلودہ ماحول، دھوئیں، گندگی کے ڈھیرو ں کی بدولت ہر قسم کی بیماریاں تیزی سے ترقی پذیر ممالک میں پھیل رہی ہیں۔ مگر پھیپھڑوں کے کینسر کو اس لئے زیادہ اہمیت اور توجہ دی جاتی ہے کہ اسے انسان (عام طور پر) خود دعوت دے کر اپنی تباہی کا سامان کرتا ہے ۔ اس کی وجہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ تمباکو نوشی ، سگریٹ، شراب وغیرہ کا بے پناہ استعمال ہے اور اسی لئے یہ کینسر دنیا کے ترقی یافت ممالک میں بھی عام ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس کی ایک بڑی وجہ غیر معیاری میٹھی سپار یوں کا استعمال بھی ہے ،جس سے پہلے کھانسی وغیرہ کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو پرانی ہو تے ہوئے پھر پھیپھڑوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر کینسر کے جراثیم کی راہ ہموار کرتی ہے اور یوں اچھا بھلا انسان دیکھتے ہی دیکھتے کینسر کا شکار ہو جا تا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں پھیپھڑوں اور اس کے کینسر کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوں تاکہ ہم خود کو اپنی حد تک اس بیماری سے محفوظ رکھ سکیں۔
پھیپھڑ ے ، انسانی جسم کا نہایت نازک اور حساس حصہ ہوتے ہیں۔ ان کی شکل تکونی ہوتی ہے اور اندر سے یہ اسفنج کی طرح پھولے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ جوڑے کی صورت میں پائے جاتے ہیں اور نظام تنفس کا سب سے اہم کر دار ادا کرتے ہیں۔ بایاں پھیپھڑا تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ دایاں پھیپھڑا دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے اوربائیں پھیپھڑے سے تھوڑا سا چھوٹا ہوتا ہے۔ پھیپھڑے کے حصوں کو ’’Lobes‘‘ کہتے ہیں۔ سانس لینے کی صورت میں پھیپھڑے آکسیجن کو جسم کے اندر کھینچ کرتمام اعضا تک پہنچاتے ہیں اور سانس باہر پھینک کر جسم کے اندر کی آلودہ ہوا یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو یہ جسم سے خارج کرتے ہیں۔ اس طرح نظام زندگی قائم رہتا ہے، لہٰذا صحتمند زندگی کا انحصار صحتمند پھیپھڑوں پر ہے۔
پھیپھڑو ں کے کینسر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1- Non-small cell lungs cance
2-small cell lungs cancer
پہلی قسم کا کینسر زیادہ عام ہے۔ اس مہلک کینسر کے خلیات جسامت میں لمبے اور بڑے ہوتے ہیں لیکن یہ دوسرے قسم کے کینسر کے مقابلے میں بہت آہستگی سے پھیلتے ہیں۔ یہ ٹیومر تین صورتوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ نہایت مہلک ہوتا ہے اور پھیپھڑے کی نالی کی جھلی کے اندر پیدا ہو کر اپنی شاخیں پھیلاتا ہے ۔اس کینسر کی شرح 33فیصد ہے یہ کیونکہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے اس لئے جلد علاج کے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہ اتنی خاموشی سے پھیلتا ہے کہ پھیپھڑو ں میں موجود ہونے کے باوجود ایکسر ے میں اس کی نشاندہی نہیں ہو پاتی اور جب ہوتی ہے تو یہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس کے علاج سے پہلے ڈاکٹر کو یہ جاننا ضروری ہوتا ہے مریض ابھی تک کن امراض کا شکار رہا ہے ؟ ۔اُس کے کوئی آپریشن ہوئے ہیں یا نہیں ؟ ۔مریض کا شوگر لیول کیا ہے ؟۔بلڈ پریشر کی کیا کیفیت ہے ؟اور کینسر کی اسٹیج کیا ہے ؟پھر مختلف معائنے اور ٹیسٹ ہوتے ہیں جب تک یہ کینسر مزید بڑھ چکا ہوتا ہے ۔ ریسرچ دانوں کی کوشش ہے کہ حفظ ماتقدم کے طور پر اس کینسر کے بننے کے عوامل پر مکمل قابو پایا جاسکے۔
کینسر کے اسباب:
پھیپھڑوں کے کینسر کی ایک وجہ تمباکو نوشی ہے جس میں سگریٹ نوشی سر فہرست ہے۔ ماہرین نے سگریٹ کے دھوئیں میں تقریباً پانچ سو مختلف کیمیائی اجزاء دریافت کئے ہیں جو سگریٹ پینے والے کے پھیپھڑوں کے خلیات میں تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں بلکہ سگریٹ کے دھوئیں کے ذریعے فضا میں پھیل کر آس پاس کے دوسرے افراد کے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انہیں بھی اس تکلیف دہ مرض میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ ان نقصان دہ عناصر کو Carcinogensکہا جاتا ہے۔ یہ خون میں جذب ہو کر سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر اس کے خلیات کو اپنا شکار بنا لیتے ہیں ۔ان میں نکوٹین ، بینزوئن یا پائیرین وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ بینزو پائرین کا تمباکو سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ سگریٹ کے کاغذ میں استعمال ہونے والے تارکول کا ایک حصہ ہے اور جب تارکول کو جلایا جاتا ہے تو دھوئیں میں بینزو پائرین کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے جو پھیپھڑوں میں داخل ہو کر خلیات کو سرطان زدہ کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فیکٹریز جہاں بڑی تعداد میں تارکول کا استعمال مختلف اشیاء بنانے کیلئے ہوتا ہے وہاں حفاظتی تدابیر نہ ہونے کی بدولت اکثر ورکرز کینسر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈیزل ، پیٹرول اور ایسے یہ دوسرے خام معدنی تیل کی By-productsنے بھی پھیپھڑوں کے کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔ مشینوں اور بسوں، گاڑیوں وغیرہ کا دھواں بھی اس مہلک مرض کا باعث ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ کینسر کی وجوہات کو پہلے سے جمع کر کے عام کر دیا جائے تاکہ لوگ حفاظتی تدابیر کر سکیں۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ تپ دق، بلغمی کھانسی، نمونیا جب حد سے بڑھ جائے تو وہ بھی پھیپھڑوں کے نازک خلیات میں زخم ڈال کر ان کو کینسر کاشکار بننے میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں۔
بائیو سکوپی:
ایک بہترین طریقہ ہے۔ کینسر کی پھیپھڑوں میں موجودگی کا پتہ لگانے کا۔ اس سلسلے میں منہ کے ذریعے پھیپھڑوں میں ہوائی نالی کے ذریعے ایک آلہ ڈالا جاتا ہے جو ربڑ ٹیوب کی مشابہت رکھتا ہے اور Bronchosopکہلاتا ہے ۔ یہ پھیپھڑوں سے کینسر زدہ خلیات بھی حاصل کرلیتا ہے جو ٹیسٹ کر کے کینسر کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔
سرطانی کیفیت:
کینسر کے مریضوں میں ایک خفیہ قسم کی کھانسی پائی جاتی ہے۔ جس میں سیٹیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اس میں بلغم کی موجودگی ضروری نہیں ہے۔ اس کھانسی کے ساتھ درد کی ٹیسیں بھی اٹھتی ہیں اور مریض کا پورا پھیپھڑا لرزتا محسوس ہوتا ہے۔ اس کھانسی میں رات میں شدت پیدا ہو جاتی ہے اور تھوک کا نگلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سانس میں کمی اورسینے میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات خون تھوڑی تھوڑی مقدار میں تھوک کے ساتھ نکلتا ہے۔ ایسے مریضوں میں مختلف ہارمونز کی بھی بہت بے قاعدگی پائی جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے ہارمونز بہت کم پیدا ہوتے ہیں اور مریض کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔ پٹھے بھی کمزور ہو جاتے ہیں۔ مریض کی گرد ن اور منہ پر سوجن ہو جاتی ہے۔ یہ سوجن اندرونی عضلات پر بھی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کے افعال جیسے بات کرنا، سانس لینا وغیرہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مریض دل میں درد، دم گھٹنا اورا ختلاج قلب کی کیفیات میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے ۔ مریض کی بغلوں کی جلد کا رنگ گہرا ہو جاتا ہے اور ان پر ورم آجاتا ہے۔ چھونے پر ان کی جلد سخت محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز کینسر کے سلسلے میں بغلوں کا چیک اپ ضروری کرتے ہیں۔ مرض اگر پیچیدگی اختیار کر لے تو پھیپھڑوں کی جھلی میں پیپ جمع ہو جاتی ہے۔ جس سے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑنے لگتے ہیں۔ خون میں بھی نمکیات کی مقدار اپنی سطح سے گر جاتی ہے اور مریض ذیا بطیس کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ ایک خاص علامت یہ سامنے آئی ہے کہ ناخنوں کے قریب کی انگلیوں کے حصے چوڑے ہوجاتے ہیں جو تشویش کن مرحلہ ہو جاتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق سیب میں پائے جانے والے ایک مادے فلے وونائیڈ (Flavonoids) کے باعث اس کے استعمال سے پھیپھڑوں کے سرطان کے خطرات میں کمی واقع ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ Cancer Prevention Research جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تازہ لہسن کو اپنی روزمرہ کی خوراک میں استعمال کرنے سے پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے کے امکانات کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے ۔ تحقیق کے مطابق لہسن میں موجود ایلی سِن ( Allicin ) انسانی جسم کے لئے بے حد فائدہ مند ہوتا ہے جو جسم میں سوزش کو کم کرکے مختلف انفیکشنز کو کنٹرول میں رکھتا ہے ، جبکہ زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لئے لہسن کو کچا کھانا چاہئے ۔
بندگوبھی میں سلفورفین (Sulforaphane) نامی مادہ پھیپھڑوں کے کینسر سے محفوظ رکھتا ہے ۔اور یہ انسانی جسم میں انزائمز کی پیدا وار کو بڑھا کر سرطان پیدا کرنے والے مادے کی پیداوار کو کم کر دیتا ہے ۔ اس کے علاوہ شملہ مرچ اور سرخ مرچوں میں موجو د فائٹو کیمیکل کی موجودگی پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔ ہری سبزیوں خصوصاََپالک میں موجود آئرن ، وٹامن اور لوٹین کی وافر مقدار کی موجودگی بھی پھیپھڑوں کے سرطان سے محفوظ رکھتی ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق گریپ فروٹ کا اینٹی آکسیڈنٹ ، لائکوپین پر مشتمل ہوتا ہے جو پھیپھڑوں میں موجود نقصان دہ ٹاکسنزکو ختم کر دیتا ہے اور خون کے سفید خلیات کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے ۔

مرض کا تدارک یا علاج:

چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
یہ معلومات آپ کو اپنی چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کے شعاعی علاج کے لیے تیاری کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی بشمول اس کے کہ علاج سے پہلے، اس کے دوران اور اس کے بعد کیا کچھ متوقع ہے۔ آپ کو ضمنی اثرات کے بارے میں اور علاج کے دوران اپنا خیال رکھنے کے بارے میں بھی معلومات ملیں گی۔
شعاعی علاج شروع کرنے سے پہلے اس کو پڑھیں۔ اپنا علاج شروع ہونے سے پہلے اس کو پڑھتے رہیں تاکہ آپ اپنے آپ کو ممکنہ حد تک تیار کر سکیں۔ اس کو اپنے ساتھ آزمائشی ملاقات(simulation )اور کینسر کا شعاعی علاج کرنے والے/والی معالج (ریڈی ایشن اونکالوجسٹ) کے ساتھ ہونے والی ہر ملاقات پر لے کر آئیں تاکہ آپ اور آپ کی ہیلتھ کیئر ڻیم کے لوگ ضرورت پڑنے پر اس سے رجوع کر سکیں۔
شعاعی علاج کے متعلق معلومات
شعاع علاج میں کینسر کے علاج کے لیے بہت زیاده توانائی والی شعاعیں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ کینسر
والے خلیات کو نقصان پہنچاتی ہیں اور ان کی دوباره افزائش مشکل ہو جاتی ہے۔ اور پھر آپ کا جسم کینسر
کے ان تباه شده خلیات سے قدرتی طور پر نجات حاصل کر لیتا ہے۔ شعاعی علاج تندرست خلیات پر بھی اثر
انداز ہوتا ہے۔ تاہم آپ کے تندرست خلیات اپنے آپ کو اس طرح سے مرمت کر سکتے ہیں جس طرح کینسر
زده خلیات نہیں کر سکتے۔
علاج کے دوران ایک مشین کی مدد سے تابکاری کی شعاعیں براه راست رسولی پر پھینکی جائیں گی۔ یہ شعاع آپ
کے جسم سے گزرتی ہے اور اپنے راستے میں آنے والے کینسر کے خلیات کو ختم کر دیتی ہے۔ آپ کو یہ شعاعیں
نظر نہیں آئیں گی یا محسوس نہیں ہوں گی۔
شعاعی علاج کا اثر ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کے کینسر کے خلیات کے خاتمے کا آغاز ہونے میں
کچھ دن یا ہفتے لگ جائیں۔ علاج ختم ہونے کے بعد یہ ہفتوں اور مہینوں تک ختم ہوتے رہیں گے۔
آپ کو شعاعی علاج سرجری یا کیمو تھیراپی سے پہلے، اس کے دوران یا اس کے بعد فراہم کیا جا سکتا ہے۔ یہ
آپ کی چھاتی، یا سینے کی بیرونی سطح اور آپ کی ہنسلی کی ہڈی یا آپ کے بازو کے نیچے موجود لمفائی
غدودوں کے لیے ہو سکتا ہے۔
شعاعی علاج کی ڻیم میں آپ کا کردار
آپ کے لیے درست علاج اور دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے صحت سے متعلق نگہداشت فراہم کرنے
والوں (ہیلتھ کیئر پرووائیڈرز) کی ایک ڻیم ہو گی۔ آپ اس ڻیم کا ایک حصہ ہیں اور آپ کا اس میں
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج مندرجہ ذیل کردار ہو گا۔
• اپنے شعاعی علاج کی تمام ملاقاتوں کے لیے وقت پر پہنچنا۔
• اپنے خدشات کے متعلق بات کرنا اور سوالات پوچھنا۔ اس تحریر کے آخر میں ممکنہ سوالات کی ایک فہرست دی
گئی ہے۔
• ضمنی اثرات ہونے کی صورت میں اپنی شعاعی علاج کی ڻیم میں شامل لوگوں کو بتانا۔
• اگر آپ کہیں درد محسوس کر رہے/رہی ہوں تو اپنے ڈاکڻر یا نرس کو اس کے بارے میں بتانا۔
• گھر پر اپنا خیال رکھنا:
o اگر آپ تمباکو نوش ہیں تو تمباکو نوشی ترک کرنا
o اپنی جلد کی دیکھ بھال کے سلسلے میں ہیلتھ کیئر پرووائیڈرز کی ڻیم کی ہدایات پر عمل کرنا۔
o ہیلتھ کیئر پرووائیڈرز کی ڻیم کی ہدایات کے مطابق مائع جات کا استعمال کرنا۔
o ہیلتھ کیئر پرووائیڈرز کی ڻیم کی طرف سے تجویز کرده خوراک کا استعمال۔
o اپنے وزن کو برقرار رکھنا۔
آزمائش یا سمولیشن
علاج شروع کرنے سے پہلے آپ علاج کی منصوبہ بندی کے ایک مرحلے سے گزریں گے/گی۔ یہ اس لیے ہو گا کہ
اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ:
• علاج کی جگہ کی نشان دہی کی جا سکے۔
• آپ کو شعاعی علاج کی درست مقدار فراہم کی جا سکے۔
• جسم کے قریبی تندرست حصوں تک تابکاری والی شعاعیں کم سے کم مقدار میں پہنچیں۔
سمولیشن کے دوران آپ کے ایکسرے لیے جائیں گے اور آپ کی جلد پر چھوڻے چھوڻے نشان لگا دیے جائیں گے۔ یہ
نشان اس حصے کا تعین کریں گے جس کو علاج فراہم کیا جائے گا۔
سمولیشن کے عمل میں 60 سے 90 منٹ تک کا وقت لگ سکتا ہے۔
سمولیشن کی تیاری
سمولیشن کے دوران آپ کو لمبے عرصے تک ایک ہی پوزیشن میں لیڻنا ہو گا۔ اگر آپ سمجھتے/سمجھتی ہیں کہ
اس طرح ساکن لیڻنا آپ کے لیے تکلیف کا سبب بن سکتا ہے تو آپ سمولیشن سے پہلے ایسٹ امائنوفین (ڻائلینول) یا
اپنی معمول کی دافع درد دوائی استعمال کر سکتے/سکتی ہیں۔ اگر آپ کے خیال میں آپ اس عمل کے دوران
اضطراب کا شکار ہو سکتے/سکتی ہیں تو اپنے/اپنی ڈاکڻر سے بات کر کے دیکھیں شاید آپ کے لیے کوئی دوائی
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
استعمال کرنا سود مند رہے۔
اس قسم کا آرام ده لباس پہنیں جس کو اتارنا آسان ہو کیونکہ ہو سکتا ہے آپ کو اس کو اتار کر ہسپتال کا گاؤن
پہننا پڑے۔
سمولیشن والے دن کیا کیا متوقع ہے
شعاعی علاج کی ڻیم کا/کی ایک رکن آپ کا استقبال کرے گا/گی۔ آپ سے متعدد بار اپنا مکمل نام بتانے اور اس کے
ہجے کرنے اور اپنی تاریخ پیدائش بتانے کو کہا جائے گا۔ ایسا آپ کے تحفظ کی خاطر کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے جس
دن آپ کا علاج ہو رہا ہے اسی دن آپ والے یا اس سے ملتے جلتے نام والے/والی کسی اور مریض کا بھی علاج ہو
رہا ہو۔
شعاعی علاج کرنے والا شخص آپ کا استقبال کرے گا۔ آپ کے چہرے کی ایک تصویر لی جائے گی۔ آپ کے علاج
کے تمام عرصے کے دوران آپ کی شناخت کے لیے اس تصویر کا استعمال کیا جاتا رہے گا۔
اس کے بعد آپ کا/کی شعاعی معالج (ریڈی ایشن تھیراپسٹ) آپ کو سمولیشن کے متعلق سمجھائے گا/گی۔ اگر آپ
نے اس سے پہلے رضامندی کے فارم پر دستخط نہیں کیے تو کینسر کا شعاعی علاج کرنے والے/والی معالج آپ
سے ہر چیز کے بارے میں تفصیلی بات کرنے کے بعد آپ سے دستخط کرنے کو کہے گا/گی۔
سمولیشن کے دوران
سمولیشن کے لیے ہو سکتا ہے آپ کو اپنا کمر سے اوپر کا لباس اتار کر ہسپتال کا فراہم کرده گاؤن پہننا
پڑے۔ آپ اپنے جوتے پہنے رکھیں گے/گی۔ اگر آپ نے سر پر کچھ پہن رکھا ہے جیسا کہ وگ، پگڑی یا ڻوپی
تو ہو سکتا ہے اس کو اتارنا پڑے۔
آپ کا/کی شعاعی معالج آپ کو میز پر لیڻنے میں مدد فراہم کرے گا/گی اور آپ کے آرام اور پرائیویسی کو
یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا/گی۔ اگرچہ میز پر چادر بچھی ہو گی لیکن یہ سخت ہو گا اور اس پر کوئی
گدا نہیں ہو گا۔ اگر آپ نے درد والی دوائی نہ کھائی ہو اور آپ کے خیال میں آپ کو اس کی ضرورت پڑ سکتی ہو تو
ً
سمولیشن شروع ہونے سے پہلے شعاعی علاج فراہم کرنے والے کو اس کے بارے میں بتائیں۔ ہاں، کمرے میں عموما
ڻھنڈ ہوتی ہے۔ اگر آپ کو اس کی وجہ سے کوئی مسئلہ ہو تو اپنے شعاعی معالج کو اس کے بارے میں آگاه کریں۔
اس سمولیشن کے دوران میز مختلف پوزیشنز میں حرکت کرے گی۔ کمرے کی روشنیاں جلائی اور
بجھائی جائیں گی اور آپ کو ہر دیوار پر لیزر کی سرخ روشنی نظر آئے گی۔ آپ کا/کی معالج لیزر کی ان
روشنیوں کو میز پر آپ کی پوزیشن درست کرنے کے لیے رہنمائی کے طور پر استعمال کرتا/کرتی ہے۔ سرخ
روشنی کی شعاع میں براه راست نہ دیکھیں کیونکہ یہ آپ کی آنکھوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اگرچہ سمولیشن کے دورات شعاعی معالج بار بار کمرے سے باہر جائے گا/گی اور واپس اندر آئے گا/گی
لیکن ہر وقت کوئی نہ کوئی ایسا شخص موجود رہے گا جو آپ کو دیکھ سکے اور آپ کی آواز سن سکے۔ آپ کو
شعاعی معالجین کی ایک دوسرے سے گفتگو سنائی دے گی اور وه آپ کو بتائیں گے کہ وه کیا کر رہے ہیں۔
سمولیشن شروع ہونے کے بعد اپنی جگہ سے ہلیں نہیں کیونکہ اس سے آپ کی پوزیشن میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ تاہم
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
اگر آپ کو ایسا کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے یا آپ کو مدد کی ضرورت ہے تو شعاعی معالجین کو بتا دیں۔
وقت گزارنے کے لیے آپ کا/کی شعاعی معالج آپ کے لیے موسیقی لگا سکتا/سکتی ہے۔ اگر آپ چاہیں تو آپ گھر
سے اپنے ساتھ کوئی سی ڈی بھی لا سکتے/سکتی ہیں۔
آپ کی پوزیشن
آپ کو کمر کے بل یا پیٹ کے بل لڻایا جا سکتا۔ ان دونوں پوزیشنوں میں آپ کے بازو آپ کے سر سے اوپر ہوں
گے۔
جلد پر لگائے جانے والے نشانات (ڻیڻو)
آپ کا/کی شعاعی معالج آپ کی جلد کے ان حصوں پر جن کو علاج فراہم کیا جائے گا، فیلٹ مارکر سے نشان لگائے
گا/گی۔ فیلٹ سے لگائے گئے ان نشانات کو سمولیشن کے بعد دھو کر صاف کیا جا سکتا ہے۔
ہو سکتا ہے آپ کی جلد پر مستقل نشانات لگائے جائیں جن کو گودنا (ڻیڻو) کہا جاتا ہے۔ آپ کا/کی
شعاعی معالج گودنے کے لیے جراثیم سے پاک سوئی اور تھوڑی سی مقدار میں روشنائی استعمال کرے
گا۔ آپ کو سوئی چبھنے کا احساس ہو گا۔ گودنے کے یہ نشانات ایک پن کے موڻے سرے سے بڑے نہیں
ہوں گے۔ گودنے کے یہ نشانات مستقل ہوں گے اور دھوئے نہیں جا سکیں گے۔ اگر شعاعی علاج کے
لیے ضروری گودنے کے ان نشانات کے بارے میں آپ کے ذہن میں کوئی خدشات یا سوالات ہوں تو اپنے
ریڈی ایشن اونکالوجسٹ سے بات کریں۔
جلد کو گودنے کے بعد آپ کا/کی شعاعی معالج سمولیشن والی پوزیشن میں آپ کی متعدد تصاویر لے گا/گے۔ ان
تصاویر اور گودنے کے نشانات کا استعمال آپ کے علاج کے دوران روزنہ آپ کو میز پر صحیح پوزیشن میں
لڻانے کے لیے کیا جائے گا۔
سمولیشن کے بعد
سمولیشن کے بعد ہم آپ کو آپ کے لیے تجویز کرده پروسیجر کے لیے ملاقات کا وقت دیں گے۔ آپ کا علاج شروع
ہونے سے پہلے ہماری آپ کے ساتھ یہ آخری ملاقات ہو گی۔ آپ کے روزانہ علاج کے لیے ایک مشین کا تعین بھی
کر دیا جائے گا۔
۔
شعاعی علاج
آپ کو اپنے علاج کے لیے تجویز کرده ہر دن پر آنا ہو گا۔ اگر آپ ان میں کوئی ناغہ کر دیں تو ہو سکتا
سکتی ہوں تو یہ ضروری ہے ٴ ہے علاج اتنا مو / ثر نہ ہو۔ اگر آپ کسی وجہ سے علاج کے لیے نہ آ سکتے
کہ آپ کینسر کا شعاعی علاج کرنے والے/والی اپنے/اپنی معالج کے دفتر فون کر کے اپنی ڻیم کو مطلع
کر دیں۔ اگر آپ کسی وجہ سے اپنے معمول کو تبدیل کرنا چاہیں تو اپنے/اپنی شعاعی معالج سے بات
کریں۔
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
علاج کی منصوبہ بندی
آپ کی سمولیشن اور آپ کے علاج کے آغاز کے دوران کینسر کا شعاعی علاج کرنے والا/والی آپ کا/کی
معالج ایک ڻیم کے ساتھ مل کر آپ کے علاج کی ترتیب بنائے گا/گی۔ یہ لوگ سمولیشن کے دوران لیے
گئے آپ کے ایکس ریز اور سی ڻی سکین کو سامنے رکھ کر آپ کو دی جانے والی تابکاری شعاعوں کے
زاویوں اور ان کی شکلوں کے بارے میں منصوبہ بندی کریں گے۔ ان تفصیلات کو بڑی احتیاط سے
ترتیب دیا جاتا اور چیک کیا جاتا ہے۔ اس میں پانچ دن سے لے کر دو ہفتے تک لگ سکتے ہیں۔
وڻامنز اور غذائی سپلیمنڻس
بہت سے لوگ علاج کے دوران وڻامنز کے استعمال کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو آپ روزانہ
بنیادوں پر وڻامن استعمال کر سکتے/سکتی ہیں۔ کوئی بھی وڻامن روزانہ تجویز کرده خوراک سے زیاده مقدار میں
نہ لیں۔ اپنے/اپنی ڈاکڻر سے بات کیے بغیر کوئی اور وڻامن یا سپلیمنٹ نہ لیں۔ اس میں غذائی اور نباتاتی
(ہربل) دونوں قسم کے سپلیمنڻس شامل ہیں۔
سیٹ اپ کا پروسیجر
ً آپ کا علاج شروع ہونے سے پہلے آپ کو س ایک
یٹ اپ پروسیجر کے لیے بلایا جائے گا۔ اس عمل میں عموما
گھنڻہ لگتا ہے۔ اگر سمولیشن کے دوران دافع درد گولیوں سے آپ کو فائده ہوا تھا تو ہو سکتا ہے اس پروسیجر
سے پہلے بھی آپ کو ان کی ضرورت پڑے۔
سیٹ اپ پروسیجر سے پہلے آپ کو ڈریسنگ روم میں لے جا کر ہسپتال کا فراہم کرده گاؤن پہننے کو کہا
جائے گا۔ آپ کا/کی معالج آپ کو اس کمرے میں لے کر آئے گا/گی جہاں آپ کا روزانہ علاج ہو گا۔ وه
آپ کو علاج والے میز پر لڻائیں گے۔ آپ بالکل اس طرح لیڻیں گے/گی جس طرح آپ اپنی سمولیشن
والے دن لیڻے تھے/لیڻی تھیں۔
اس چیز کو یقینی بنانے کے لیے آپ کی پوزیشن درست ہے اور علاج صحیح جگہ کا ہو رہا ہے خصوصی
ایکسرے لیے جائیں گے جن کو بیم فلمز کہا جاتا ہے۔ یہ بیم فلمز آپ کے علاج کے دوران بار بار لی جائیں گی۔
یہ اس لیے نہیں لی جاتیں کہ آپ کی رسولی پر علاج کے اثر کو دیکھا جا سکے۔
علاج کے دوران جب آپ علاج کے لیے آئیں تو استقبالیہ ڈیسک پر بتا کر کمره انتظار میں تشریف رکھیں۔ جب شعاعی معالجین
آپ کے علاج کے لیے تیار ہوں گے تو وه آپ کو اپنا لباس اتار کر ہسپتال کا فراہم کرده گاؤن پہننے کو کہیں گے۔ علاج کے دوران آپ اپنے جوتے پہنے رہیں۔
شعاعی معالج آپ کو لے کر کمره علاج میں آئے گا/گی اور میز پر لیڻنے میں آپ کی مدد کرے گا/گی۔
آپ بالکل اس پوزیشن میں لیڻیں گے/گی جس طرح سیٹ اپ پروسیجر کے دوران لیڻے تھے/لیڻی تھیں۔
آپ کے ایک دفعہ صحیح طور پر لیڻنے کے بعد آپ کا/کی شعاعی معالج کمرے سے باہر جا کر کمرے کا
دروازه بند کر دے گا/گی اور آپ کا علاج شروع کر دے گا/گی۔ آپ کو شعاعیں نظر نہیں آئیں گی یا
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
محسوس نہیں ہوں گی لیکن آپ کو مشین کے آپ کے جسم کے ارد گرد گھومنے اور چلنے یا بند ہونے
کی آواز سنائی دے سکتی ہے۔ آپ کے علاج کا منصوبہ ترتیب پانے کے بعد آپ کو کمره علاج میں 10
سے 20 منٹ تک کا عرصہ لگے گا۔ اس وقت کا زیاده حصہ آپ کی پوزیشن کو درست کرنے میں میں
صرف ہو گا۔ اصل علاج میں صرف چند منٹ ہی لگیں گے۔
اگرچہ علاج کے دوران آپ کمرے میں اکیلے/اکیلی ہی ہوں گے/گی مگر آپ کا/کی شعاعی معالج اس تمام
عرصے میں مانیڻر کے ذریعے آپ کو دیکھ سکے گا/گی اور انڻر کام کے ذریعے آپ کی آواز سن سکے
گا/گی۔ یہ لوگ اس چیز کو یقینی بنائیں گے کہ آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ علاج کے دوران معمول
کے مطابق سانس لیتے رہیں مگر ہلیں نہیں۔ تاہم اگر آپ دقت محسوس کر رہے/رہی ہوں یا آپ کو کسی
مدد کی ضرورت ہو تو اپنے/اپنی شعاعی معالجین سے بات کریں۔ ضرورت پڑنے پر وه کسی بھی وقت
مشین کو بند کر کے آپ سے بات کرنے کے لیے اندر آ سکتے ہیں۔
علاج کے دوران یا اس کے بعد آپ خود یا آپ کے کپڑے تابکار نہیں ہو جاتے۔ آپ بحفاظت دوسرے لوگوں سے گھل
مل سکتے ہیں۔
اضافہ علاج یا بُوسڻس
اگر آپ کا شعاعی علاج گلڻی نکالنے (lumpectomy (کے بعد ہو رہا ہے تو ابتدائی طور پر ساڑھے تین
ہفتے سے لے کر پانچ ہفتے یہ شعاعی علاج آپ کی تمام چھاتی کے لیے ہو گا۔ اس کے بعد آپ کو تابکاری
کی ایک اضافی مقدار دی جائے گی جس کو “بُوسٹ” کہا جاتا ہے۔ بوسٹ میں شعاعیں بجائے پوری چھاتی
کو دینے کے صرف اس حصے کو دی جاتی ہیں جہاں پر گلڻی یا کینسر زده خلیات پائے گئے تھے۔
بُوسٹ سے پہلے آپ کا/کی شعاعی معالج بُوسٹ کی جگہ کی نشان دہی کرنے کے لیے آپ کی جلد پر فیلٹ والے
مارکر سے مزید نشان لگائے گا/گی۔ قمیص ایسی پہنیں جس پر نشان لگنے سے آپ کو کوئی مسئلہ نہ ہو کیونکہ
مارکر کی روشنائی آپ کے کپڑوں پر لگ سکتی ہے۔ جلد پر لگائے گئے یہ نشانات مستقل ہوں گے۔ اپنا علاج مکمل
ہونے سے پہلے ان کو صاف نہ کریں۔
بُوسٹ کے دوران آپ کو تابکاری کی اتنی ہی مقدار دی جائے گی جتنی آپ کو علاج کے دوران دی گئی تھی۔ تاہم
یہ نسبتا چھوڻے حصے کو دی جائے گی۔ ہو سکتا ہے آپ کی تمام چھاتی کے علاج کے خاتمے اور بُوسٹ کے ً
آغاز کے درمیان کچھ دن کا وقفہ ہو۔ بُوسٹ کے لیے آپ کا علاج پہلے سے مختلف مشین پر کیا جا سکتا ہے یا
آپ کو پیٹ کے بل لیڻنے کی بجائے کمر کے بل لیڻنے کو کہا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کے سینے کی بیرونی سطح یا ہنسلی کی ہڈی یا بازو کے نیچے کے لمفائی غدودوں کا شعاعی علاج ہو رہا
ہے تو آپ کا علاج پانچ سے ساڑھے پانچ ہفتے تک کا ہو گا۔ ہو سکتا ہے آپ کو بُوسٹ کی ضرورت نہ پڑے۔ کینسر
کے شعاعی علاج کا/کی ماہر معالج اس بارے میں آپ سے بات کرے گا/گی۔
علاج کے دوران ہفتہ وار معائنے
کینسر کے شعاعی علاج کا/کی ماہر معالج اور شعاعی علاج سے متعلق نرس ہر ہفتے آپ سے ملاقات کر
کے آپ سے آپ کے خدشات کے بارے میں بات کریں گے، آپ سے ضمنی اثرات کے بارے میں پوچھیں
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
گے اور آپ کے سوالات کے جوابات دیں گے۔ یہ ملاقات ہر ________________ والے روز آپ
کے علاج سے پہلے یا بعد ہو گی۔ ان دنوں پر آپ کو اپنی ملاقات کے وقت میں ایک گھنڻہ زیاده رکنا ہو گا۔
اگر آپ کینسر کے شعاعی علاج کا/کی ماہر معالج یا نرس سے ان ہفتہ وار ملاقانوں کے علاوه کسی وقت بات کرنا
چاہتے/چاہتی ہیں تو کینسر کے شعاعی علاج کا/کی ماہر معالج کے دفتر فون کریں یا روزانہ علاج والی ملاقات کے
دوران معاون عملے یا اپنے/اپنی شعاعی معالج سے ان سے رابطہ کرنے کو کہیں۔
ضمنی اثرات
بعض لوگوں کو شعاعی علاج سے ضمنی اثرات ہو جاتے ہیں۔ ان کی نوعیت اور شدت کا انحصار بہت سے
عوامل پر ہے۔ ان میں تابکاری کی مقدار، شعاعی علاج کی تعداد اور آپ کی عمومی صحت شامل ہیں۔
عموما والے ضمنی اثرات دیے جا ً ذیل میں چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کو دی جانے والے شعاعی علاج کے
رہے ہیں۔ آپ میں یہ سب، یا ان میں سے کچھ یا کوئی بھی نہیں ہو سکتے۔
جلد یا بالوں پر اثرات
شعاعی علاج کے دوران جس حصے کا علاج کیا جا رہا ہے اس میں جلد اور بالوں میں تبدیلیاں آئیں گی۔
آپ کی جلد کا رنگ گلابی یا سرخ ہو سکتا ہے، اس کی رنگت گہری ہو سکتی ہے یا یہ دھوپ میں جلنے کی طرح
ہو سکتی ہے۔ آپ کے بازو اور آپ کی چھاتی کے نیچے جلد کی شکنوں کے اندر، آپ کی ہنسلی کی ہڈی کے اوپر
کی جلد میں یا شعاعی علاج والے کسی ایسے حصے میں چھالے پڑ سکتے ہیں یا آپ کی جلد چھل کر اتر سکتی
ہے جو اس سے پہلے دھوپ میں رہا ہو۔
آپ کی جلد کی حساسیت بہت زیاده ہو سکتی ہے اور اس میں خارش ہو سکتی ہے۔ جس چھاتی کا علاج کیا جا رہا ہے ہو سکتا ہے اس میں سوجن یا درد کی حساسیت(tenderness (ہو جائے۔
جس طرف علاج ہو رہا ہے ہو سکتا اس طرف آپ کی بغل میں کچھ یا تمام بال اتر جائیں۔ یہ عموما 2 سے 4ً
مہینے میں واپس آ جاتے ہیں۔
ًخصوصا ان حصوں میں جو پہلے دھوپ میں رہے ہو سکتا ہے بعض جگہوں پر سرخی بھی نظر آئے
اگرچہ یہ سرخی علاج کا ضمنی اثر بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ سرخی انفیکشن کی علامت بھی ہو سکتی ہے۔ اگر علاج کے دوران کسی وقت آپ سرخی دیکھیں تو اپنے/اپنی ڈاکڻر یا نرس کو بتائیں۔
ہو سکتا ہے آپ کا/کی نرس کسی خاص قسم کی ڈریسنگ یا مرہم سے آپ کا علاج کرے اور آپ کو اپنی جلد کا خیال
رکھنے کا طریقہ بتائے۔ آپ کا/کی ڈاکڻر آپ کی جلد کے صحتمند ہونے تک آپ کے علاج کو روک سکتا/سکتی ہے۔ جلد
کے مسائل بعض اوقات علاج کے بعد آنے والے ہفتے میں بڑھ سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو اپنے/اپنی ڈاکڻر یا نرس سے
فون پر رابطہ کریں۔
ً شعاعی علاج کے ختم ہونے کے ایک سے دو ہفتے بعد کے
شعاعی علاج سے ہونے والے جلدی اثرات عموما
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
ًدوران سب سے زیاده ہوتے ہیں اور اس کے بعد یہ بہتر ہونا شروع ہو جاتے۔ ان کے ڻھیک ہونے میں عموما
تین سے چار ہفتے لگتے ہیں۔
ذیل میں دوران علاج اپنی جلد کی دیکھ بھال کرنے کے بارے میں ہدایات فراہم کی گئی ہیں۔ اپنی جلد کی
صحتیابی تک ان ہدایات پر عمل کریں۔ یہ ہدایات جلد کے صرف اس حصے سے متعلق ہیں جس کو
شعاعی علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔
اپنی جلد کو صاف رکھیں
ً
• روزانہ نیم گرم پانی سے غسل کریں یا شاور کریں اور معتدل قسم کا بغیر خوشبو والا صابن مثلا
RNeutrogena® ،Dove ،بچوں والا صابن، RBasis ،یا Cetaphil استعمال کریں۔ اپنی جلد کو اچھی
طرح دھو لیں اور ایک نرم تولیے سے خشک کر لیں۔
• جلد کے زیر علاج حصے کو دھونے میں بہت احتیاط برتیں۔ صافی، رگڑ والا کپڑا یا برش استعمال نہ کریں۔
• علاج سے پہلے جسم پر گودنے کے جو نشانات لگے تھے وه مستقل ہیں اور صاف نہیں ہوں گے۔ علاج کے
دوران ہو سکتا ہے آپ کے جسم پر دیگر نشانات لگائے جائیں گہ جیسا کہ فیلٹ والے مارکر سے جامنی رنگ میں
اس حصے کی نشان دہی جہاں علاج ہونا ہے۔ کینسر کا شعاعی علاج کرنے والے/والی معالج سے اجازت ملے
کے بعد آپ ان نشانات کو معدنیاتی تیل (منرل آئل) کی مدد سے صاف کر سکتے/سکتی ہیں۔
• جسم کے زیر علاج حصے پر الکوحل یا الکوحل والے پیڈ استعمال نہ کریں
اپنی جلد کو بار بار موئسچرائز کرتے رہیں
• علاج شروع ہونے کے ساتھ ہی موئسچرائزر استعمال کرنا شروع کر دیں۔ اس سے جلد کے مسائل کم سے کم
ہو جائیں گے۔ آپ بغیر نسخے کے ملنے والا کوئی بھی موئسچرائزر استعمال کر سکتے/سکتی ہیں۔
موئسچرائزر کا انتخاب کرتے وقت ایسا موئسچرائزر منتخب کریں جس میں خوشبو یا لینولن (lanolin (نہ
ہو۔ ایسے بہت سارے پراڈکٹ موجود ہیں جو استعمال کیے جا سکتے ہیں اور آپ کا/کی نرس آپ کو اس
بارے میں مشوره دے سکتا/سکتی ہے۔ ایک وقت میں ایک ہی استعمال کریں تاوقتیکہ کہ آپ کا/کی نرس آپ
کو ایک سے زیاده استعمال کرنے کو کہے۔
• اگر آپ موئسچرائزر استعمال کر/رہی ہیں تو اس کو دن میں دو مرتبہ استعمال کریں۔
• جلد میں ہونے والی خارش کے علاج کے لیے شعاعی علاج کے شروع میں یا اس کے دوران آپ کو دوائی
کے لیے نسخہ بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔
جلد کے زیر علاج حصے کو چھیڑنے سے گریز کریں
• زیر علاج حصے کے لیے ڈھیلا اور سوتی لباس اور زیر جامہ استعمال کریں۔ چست کپڑے جو جلد پر
رگڑ پیدا کریں بشمول خواتین کے لیے تاروں والی انگیا استعمال کرنے سے گریز کریں۔
• صرف وہی موئسچرائزر، کریمیں اور لوشن استعمال کریں جن کے متعلق آپ نے کینسر کا شعاعی علاج
کرنے والے/والی معالج یا نرس سے بات کر لی ہو۔
• زیر علاج حصے پر میک اپ، خوشبویات، پاؤڈر یا آفڻر شیو کا استعمال نہ کریں۔
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
• زیر علاج حصے پر ڻیپ نہ لگائیں۔
• اگر آپ کو جلد میں خارش ہو تو اس کو کھجائیں نہیں۔ موئسچرائزر لگائیں اور اپنے/اپنی نرس سے پوچھیں کے
خارش کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔
• زیر علاج حصے میں شیو نہ کریں۔ اگر ایسا کرنا ضروری ہو تو صرف برقی ریزر ہی استعمال کریں۔ اگر جلد کا
مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو رک جائیں۔
• زیر علاج حصے کے ساتھ بہت زیاده یا بہت کم درجہ حرارت والی چیزیں نہ چھوئیں۔ اس میں شامل ہیں گرم پانی
کا ڻب، سینکائی والی بوتلیں، سنکائی والے پیڈز اور برف کی ڈلیاں۔
• اگر علاج کے دوران آپ کو جلد کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا تو آپ کلورین ملے پانی والے تالاب میں تیراکی کر
سکتے/سکتی ہیں۔ تاہم تالاب سے نکلتے ہی صاف پانی سے جسم کو دھونا نہ بھولیں۔
• علاج کے دوران اور اس کے بعد زندگی بھر اپنے جلد کو ڻین (tan (کرنے یا جلنے سے بچائیں۔ دھوپ میں
نکلتے وقت ایسا سن بلاک استعمال کریں جس میں PABA نہ ہو اور اس کا SPF) ایس پی ایف) 30 یا اس سے
زیاده ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنیں جو آپ کے جسم کے زیاده سے زیاده حصے کو
ڈھانک سکیں۔
چھاتی میں تکلیف یا سوجن
ً چھاتی کے سرے (نپل) پر۔ ہو
ہو سکتا ہے آپ کو چھاتی میں ہاتھ لگانے سے کچھ درد محسوس ہو، خصوصا
سکتا ہے چھاتی میں فالتو مائع جمع ہو جانے کی وجہ سے اس میں نوکیلی چیز کے چبھنے جیسا احساس ہو
سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو اپنی چھاتی یا سینے میں بھاری پن یا سوجن محسوس ہو۔ آپ کو علاج والی
طرف والے کندھے میں اکڑن بھی محسوس ہو سکتی ہے۔
آپ کو یہ چیزیں علاج کے ابتدائی دنوں میں محسوس ہونا شروع ہو سکتی ہے اور ممکن ہے یہ علاج ختم ہونے کے بعد
کئی مہینے تک چلیں۔ ذیل میں ان کو کم کرنے کے لیے کچھ تجاویز دی جا رہی ہیں۔
• اگر آپ خاتون ہیں تو آپ کو چاہیے کہ نرم اور ڈھیلی انگیا پہنیں جس میں تاروں کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔
اگر آپ انگیا پہنیں ہی نہ تو شاید آپ زیاده بہتر محسوس کریں۔
• ضرورت پڑنے پر درد ختم کرنے والی دوائیاں جیسا کہ نان سڻیرائیڈل اینڻی انفلیمیڻیری ڈرگز (NSAIDS (
استعمال کریں۔ NSAIDS کی بعض مثالیں ہیں (RAdvil (ibuprofen یا (RAleve (naproxen۔ اگر
آپ NSAIDS استعمال نہیں کر سکتے/سکتیں تو آپ اس کی بجائے (RTylenol (acetaminophen
لے سکتے/سکتی ہیں
تھکاوٹ
تھکاوٹ سے مراد ہے جب آپ اپنے آپ کو تھکا ہوا یا کمزور محسوس کریں، آپ کا کچھ کرنے کو دل نہ
چاہے، آپ توجہ نہ دے پائیں، توانائی کی کمی یا سستی محسوس کریں۔ یہ تھکاوٹ آپ دو سے تین ہفتوں
کے علاج کے بعد محسوس کر سکتے/سکتی ہیں اور یہ معمولی سے لے کر شدید تک ہو سکتی ہے۔ علاج ختم
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
ہونے کے بعد یہ آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی لیکن ہو سکتا ہے کئی مہینے تک رہے۔
علاج کے دوران تھکاوٹ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں شامل ہیں:
• آپ کے جسم پر تابکاری کا اثر۔
• علاج کے لیے آمدورفت۔
• رات کو نیند کا پورا نہ ہونا۔
• ناکافی مقدار میں لحمیات پروڻینز اور حرارے کیلوریز نہ استعمال کرنا
• درد یا دوسرے مسائل ہونا
• بے چینی یا پژمردگی محسوس کرنا
• بعض دوائیوں کے ضمنی اثرات
شاید آپ کو لگے کہ دن کے بعض حصوں میں آپ زیاده تھکاوٹ محسوس کرتے/کرتی ہیں۔ ذیل میں تھکاوٹ سے
نمڻنے کے لیے کچھ تجاویز دی جا رہی ہیں۔
تھکاوٹ سے نمڻنے کے طریقے
• اگر آپ کام کر رہے/رہی ہیں اور آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا تو ایسا کرتے/کرتی رہیں۔ تاہم ہو سکتا ہے
کہ کام میں کمی کرنے سے آپ اپنی توانائی میں بہتری محسوس کریں۔
• اپنی روزانہ کی سرگرمیوں کا ایک معمول بنائیں۔ ان چیزوں کا انتخاب کریں جو ضروری ہیں اور آپ کے
ً لیے سب سے اہم ہیں اور ان کو ایسے وقت کریں جب آپ آپ کام پر
کی توانائی اپنی بہترین سطح پر ہو۔ مثلا
جا سکتے/سکتی ہیں لیکن گھر کا کام نہ کریں یا اپنے بچوں کی کھیلوں کی سرگرمیاں پر جا سکتے/سکتی
ہیں لیکن کھانے کے لیے باہر جانا ضروری نہیں۔
ً اس
• دن کے دوران آرام کرنے یا قیلولہ کرنے کے لیے وقت (10 سے 15 منٹ کے لیے) نکالیں۔ خصوصا
وقت جب آپ زیاده تھکن محسوس کر رہے/رہی ہوں۔ اگر آپ دن میں سوتے/سوتی ہیں تو ایک وقت میں ایک
گھنڻے سے کم سوئیں
• ہر رات کم از کم 8 گھنڻے نیند لینے کی کوشش کریں۔ ممکن ہے یہ نیند اس سے زیاده ہو جتنی آپ شعاعی
علاج شروع کرنے سے پہلے لیا کرتے تھے/کرتی تھیں۔ شاید آپ کے لیے رات کو جلدی سونا اور صبح دیر
ً اگر آپ ورزش
سے اڻھنا فائده مند ہو۔ رات کو بہتر نیند لینے کا ایک طریقہ ہے کہ آپ دن میں فعال رہیں۔ مثلا
کر سکتے/سکتی ہیں تو آپ سیر کو چلے/چلی جائیں، یوگا کر لیں اور سائیکل چلا لیں۔ رات کو بہتر نیند
لینے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ لیڻنے سے پہلے اپنے آپ کو پر سکون کیا جائے۔ آپ کوئی کتاب پڑھ
سکتے/سکتی ہیں، کوئی جگ سا پزل حل کر سکتے/سکتی ہیں، موسیقی سن سکتے/سکتی ہیں یا کوئی ایسی
سرگرمی کر رسکتے/سکتی ہیں جو آپ کو پر سکون کر دے۔
• رشتہ داروں اور دوستوں سے کہیں کہ وه خریدوفروخت، کھانا پکانا اور صفائی ستھرائی میں آپ کی مدد کر
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
دیں۔ اپنی انشورنس کمپنی سے پوچھیں کی کیا وه گھر پر مدد فراہم کرنے والی سروسز کے لیے ادائیگی کر
سکیں گے۔
• بعض لوگ ورزش کرنے پر اپنے اندر زیاده توانائی محسوس کرتے ہیں۔ اپنے ڈاکڻر سے پوچھیں کہ آپ ہلکی
پھلکی ورزش جیسا کہ چلنا، جسم کو تاننا، یا یوگا وغیره کر سکتے/سکتی ہیں۔
• ایسی خوراک اور مشروبات استعمال کریں جس میں زیاده لحمیات اور حرارے ہوں۔ آپ کا/کی نرس آپ کو Well Eating
Treatment Cancer Your After and During) کینسر کے علاج کے دوران اور اس کے بعد اچھی خوراک لینا) فراہم
۔)www.mskcc.org/pe/eating_cancer_treatment) گی/گا کرے
• دیگر علامات جیسا کہ درد، متلی، اسہال، بے خوابی، پژمردگی یا بے چینی بھی آپ کی تھکاوٹ میں اضافہ کر
سکتے ہیں۔ کینسر کے شعاعی علاج کا/کی ماہر اپنے معالج یا نرس سے پوچھیں کہ وه کسی بھی شکایت کے
بارے میں کس طرح آپ کی مدد کر سکتا/سکتی ہے
ازدواجی صحت
آپ کے ذہن میں یہ تشویش ہو سکتی ہے کہ کینسر یا اس کا علاج کس طرح سے آپ کی جنسیت پر اثر انداز
ہو سکتے ہیں۔ آپ کے اندر تابکاری نہیں۔ آپ سے کسی اور کو تابکاری نہیں پہنچ سکتی۔ لہذا دوسرے
لوگوں سے قریب ہونے میں کوئی حرج نہیں۔
آپ شعاعی علاج کے دوران ازدواجی تعلقات رکھ سکتے/سکتی ہیں تاوقتیکہ کہ کینسر کے شعاعی علاج کا/کی
ماہر معالج کی ہدایات اس کے برخلاف ہوں۔ تاہم اگر آپ یا آپ کی ساتھی بچہ پیدا کرنے کے قابل ہیں تو علاج کے
دوران حمل کو روکنے کے لیے آپ لوگوں کے لیے ضبط تولید (مانع حمل طریقوں) کا استعمال ضروری ہے۔

چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
نفسیاتی صحت
کینسر کی تشخیص اور اس کا علاج انتہائی دباؤ کا سبب بن سکتا ہے۔ آپ مندرجہ ذیل احساسات کا شکار ہو سکتے/سکتی
ہیں:
• بے چینی • غصہ • گھبراہٹ
• خوف • پژمردگی • بے حسی
• تنہائی • بے بسی • پریشانی
• تذبذب • مایوسی
اگر آپ کو یا آپ کی کسی قریبی ہستی کو کوئی خطرناک بیماری ہو تو آپ ان تمام قسم کے جذبات کا سامنا کر
سکتے/سکتی ہیں۔ آپ کو یہ پریشانی بھی ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے آجر کو کیسے بتائیں کہ آپ کو کینسر ہے
یا یہ بھی کہ آپ علاج کا خرچہ کیسے ادا کریں گے/گی۔ آپ کو اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں
تبدیلی، کینسر کے علاج کے آپ کے جسم پر اثر یا اس بارے میں بھی پریشانی ہو سکتی ہیں کہ آپ میں جنس
مخالف کے لیے کشش برقرار رہے گی کہ نہیں۔ آپ کو یہ پریشانی بھی ہو سکتی ہے کہ یہ کینسر دوباره بھی
ہو سکتا ہے۔ ہم آپ کی مدد کے لیے موجود ہیں۔
اپنے احساسات سے نمڻنے کے طریقے
• دوسروں کے ساتھ بات کریں۔ جب لوگ ایک دوسروں کو ڻھیس پہنچانے سے بچانے کے لیے اپنے احساسات کو
چھپاتے ہیں تو وه تنہائی محسوس کر سکتے ہیں۔ بات چیت کر کے آپ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بتا
سکتے/سکتی ہیں کہ آپ کیا سوچ رہے/رہی ہیں۔ کسے ایسے شخص سے بات کرنا جس پر آپ کو
اعتماد ہو آپ کے لیے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ آپ اپنے/اپنی شریک حیات، قریبی دوست، رشتہ دار،
اپنی عبادت گاه کے انچارج، نرس، سماجی کارکن، یا ماہر نفسیات کا انتخاب کر سکتے/سکتی ہیں۔ آپ
شعاعی علاج سے گزرنے والے کسی شخص سے، کینسر سے صحتیاب ہونے والے کسی ایسے مریض
سے جس کا آپ والا علاج ہوا ہو یا ایسے کسی مریض کے تیماردار سے بھی بات کر سکتے/سکتی
ہیں
• کسی سپورٹ گروپ میں شمولیت اختیار کریں۔ کینسر کے دوسرے مریضوں سے بات کر کے آپ کو اپنے
احساسات کے متعلق بات کرنے اور ان لوگوں کی بات سننے کا موقع ملے گا جن کو وہی تشویش ہے جو آپ
کو ہے۔ آپ کو یہ پتہ چلے گا کہ لوگ اپنے کینسر اور اس کے علاج سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔ آپ
کا/کی ڈاکڻر، نرس یا سوشل ورکر آپ کو ایسے سپورٹ گروپس کے متعلق بتا سکتا/سکتی ہے جن میں آپ
شامل ہونا چاہیں گے۔
• پرسکون ہونے کی کوشش کریں اور مراقبہ کریں۔ آپ یہ تصور کرتے ہوئے کہ آپ اپنی کسی پسندیده جگہ
پر ہیں دھیرے دھیرے سانس لیں، ہر سانس پر توجہ دیں، یا کوئی سکون آور موسیقی سنیں۔ بعض لوگوں کے
لیے عبادت مراقبے کا کام دیتی ہے۔ آپ اس قسم کی سرگرمیوں سے آپ اپنے آپ کو پر سکون محسوس
کریں گے/گی۔
• ورزش۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک ہلکی پھلکی سرگرمی جیسا کہ چلنا، سائیکل چلانا، یوگا اور پانی میں
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
کی گئی ورزشیں لیے فائده مند ہوتی ہیں۔ اپنے/اپنی ڈاکڻر یا نرس سے بات کریں کہ آپ کس قسم کی
ورزشیں کر سکتے/سکتی ہیں۔
ً ہم وہی طریقے اختیار کرتے ہیں جومشکل حالات سے نمڻنے کے لیے سب کے اپنے اپنے طریقے ہیں۔ عموما
ماضی میں ہمارے لیے کارآمد ثابت ہوئے ہوں۔ تاہم بعض اوقات ایسا کرنا کافی نہیں ہوتا۔ ہم آپ کو یہی کہیں گے
کہ آپ کے ذہن میں جو بھی تشویش ہے اس کے متعلق اپنے/اپنی ڈاکڻر، نرس یا سماجی کارکن کو بتائیں۔
علاج کے بعد
براه مہربانی کینسر کے شعاعی علاج کا/کی ماہر معالج کے ساتھ ہونی والی اپنی فالو اپ کی ملاقاتوں
میں ضرور جائیں۔ وه اس چیز کی جانچ کریں گے کہ علاج سے آپ کی بیماری میں کتنی بہتری آئی
ہے۔ ہو سکتا ہے ان ملاقاتوں کے دوران آپ کے خون کے ڻیسٹ، ایکسرے اور سی ڻی سکین کیے
جائیں۔ ملاقات پر آنے سے پہلے اپنے سوالات اور خدشات کو ایک کاغذ پر لکھ لیں۔ اس کاغذ کو اور
اپنی تمام دوائیوں کی فہرست کو اپنے ساتھ لے کر آئیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوالات یا تشویشات ہوں
تو اپنا علاج مکمل ہونے کے بعد آپ کسی وقت بھی یا فالو اپ ملاقاتوں کے درمیان کینسر کے شعاعی علاج کا/کی
ماہر معالج یا نرس کو کال کر سکتے ہیں۔
چھاتی یا سینے کی بیرونی سطح کا شعاعی علاج
مندرجہ ذیل علامات کی صورت میں کینسر کے شعاعی علاج کے/کی ماہر معالج یا نرس سے رابطہ کریں
• اگر جسمانی درجہ حرارت (C °38 (F °4.100 یا اس سے زیاده ہو
• کپکپی
• درد، جلد اترنا، چھالے بننا، جلد کا گیلا ہو یا رسنا
• جس حصے کا علاج ہوا ہے اس میں تکلیف
• چھاتی، بازو یا بغل میں سوج میں اضافہ

لبلبے کے سرطان کی تشخص ہونے کے بعد پانچ سال بعد صرف چار فیصد ہی زندہ بچ پاتے ہیں۔ لبلبے کا سرطان کی ابتدا میں تشخیص مشکل سے ہو پاتی ہے اور اس وجہ سے اکثر اوقات بعد میں اس کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔کمیبرج یونیورسٹی کے کینسر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محققین کے مطابق نئی دوا ’AMD3100‘ یا Plerixafor کی مدد سے سرطان کی تاخیر سے تشخیص کی صورت میں علاج ممکن ہو سکے گا۔

اللہ تعالی نے ایسی ہزاروں جڑی بوٹیاں پیدا کی ہیں جن میں کھانے کے علاوہ بیماریوں کا علاج بھی پوشیدہ ہے اور اس لیے اب سائنس دان ان کے اندر چھپے صحت کے خزانوں کو سامنے لارہے ہیں ایسی ہی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کئی ایسی جڑی بوٹیاں اور کھانے میں استعمال ہونے والی اشیا ہیں جن میں کینسر کا بہترین علاج چھپا ہوا ہے۔
ادرک: ان جڑی بوٹیوں میں ادرک کا نام سرفہرست ہے جسے زمانہ قدیم سے حکما نزلے سے لے کر قبض تک کی بیماریوں کی ادویات کی تیاری میں استعمال کرتے رہے ہیں جب کہ اسے تازہ پاؤڈر کی شکل میں یا پھر گرائنڈ کرکے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ادرک کا باقاعدہ استعمال کینسر کے دوران جسم میں مزاحمت پیدا کرتا ہے اور بالخصوص کینسر کے علاج کے دوران ہاضمے کو درست رکھنے میں مدد گار ہوتا ہے۔
سدا بہار کے پھول: یہ ایک یونانی سوئی کی شکل کی جڑی بوٹی ہے جسے عام طور پر ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے جبک ہ بحروم کے لوگ اسے کھانے میں بھی استعمال کرتے ہیں جیسے سوپ، ٹماٹر سے بنے ساس، روٹی اور ہائی پروٹین غذاؤں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے نظام ہاضمہ کی درستگی اور بھوک بڑھانے کے لیے ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے جب کہ کینسر کے مریض اگراس کے پتوں سے تیارکردہ پانی کے روزانہ تین کپ پیئیں تو انسانی مزاحمتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں۔

ہلدی کا استعمال: ہلدی کا استعمال اکثر کھانوں میں کیا جاتا ہے جب کہ اس میں موجود کرکمین میں اینٹی آکسی ڈینڈ اور تیزابیت کے خاتمے میں مدد دیتا ہے، اس کے علاوہ کینسر کے خلاف لڑنے کی بھی اس میں صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس سے تیار کردہ اشیا پر کینسر کے خلاف لڑنے کی صلاحیت پر تحقیق کی جارہی ہیں جس میں پروسٹیٹ، چھاتی اور جلد کا کینسر شامل ہیں۔

لال مرچیں: لال مرچ میں کیسیسین نامی اہم مرکب پایا جاتا ہے جو کسی بھی تکلیف میں فوری آرام دیتا ہے جب کہ اس کے لگانے سے جلد سے کیمیکل پی خارج ہوتا ہے اور اس کے مسلسل استعمال سے رفتہ رفتہ درد سے مکمل آرام آجاتا ہے۔ اس سے بنی کریم نیوروپیتھک کی بیماری کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے جب کہ کینسر کے مریض کے علاج کے دوران اس کے استعمال سے قوت مزاحمت بڑھ جاتی ہے۔

لہسن کا استعمال: لہسن کو ایلیم کلاس میں رکھا جاتا ہے جس میں بڑی مقدار میں سلفر، فلیوونائڈز، سیلینیم اور آجینین پایا جاتا ہے جو کئی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ لہسن کا مسلسل استعمال پیٹ، کولون، ایسو فیگس،لبلہ اور سینے کے کینسر کے خدشے کو کم کردیتا ہے۔ ایک اور تحقیق میں کہا گیا ہے کہ لہسن مختلف میکنیزم جیسے بیکٹیریل انفکیشن اور کینسر کا باعث بننے والے اجزا سے جسم کے اندرونی نظام کی حفاظت کرتا ہے۔

پودینہ کا استعمال: کئی صدیوں سے لوگ اس کا استعمال نظام ہاضمہ کی بہتری اور گیس کی بیماریوں سے نجات کے لیے کرتے رہے ہیں جب کہ یہ فوڈ پوائزنگ اور باول سنڈروم میں بھی آرام پہنچاتا ہے۔ پیٹ کے کینسر میں مبتلا مریض کے روزانہ ایک کپ اس کو پکا کر پینے سے مزاحمتی قوت بڑھ جاتی ہے اس کے علاوہ گلے خراش اور منہ کے درد میں بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔

گوبھی گردوں کے لیے بہترین
جو لوگ گوبھی، بند گوبھی یا اسی قسم کی دیگر سبزیوں کا ہفتے میں ایک بار ضرور استعمال کرتے ہیں ان میں گردوں کے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ ایک یورپی تحقیق کے مطابق گوبھی اور اسی کی نسل کی دیگر سبزیاں گردوں کے افعال کو درست رکھ کر کینسر کا خطرہ کم کردیتی ہیں خاص طور پر ان افراد کے مقابلے میں تو بہت کم ہوتا ہے جو مہینے میں یا کئی کئی ماہ بعد اس کو اپنی غذا کا حصہ بناتے ہیں۔

مچھلی کا استعمال
کریٹیو کامنز فوٹوجو خواتین ہفتے میں تین بار مچھلی کا استعمال کرتی ہیں ان میں آنتوں کے کینسر کا باعث بن جانے والے خلیات کی نشوونما کا خطرہ بھی 33 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ مچھلی خاص طور پر سالمون اومیگا تھیر فیٹی ایسڈز سے بھرپور ہوتی ہے جو کہ کینسر کے خلاف جنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک آسٹریلین تحقیق کے مطابق جو لوگ ہفتے میں مچھلی کے 4 یا اس سے زائد ٹکڑے کھاتے ہیں ان میں خون کے سرطان کی مختلف اقسام کا امکان کم ہوتا ہے۔ اسی طرح مچھلی کے استعمال سے خواتین میں مادر رحم کے کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

پیاز کو کھائیں
جب بات ہو کینسر کے خلاف لڑنے والی اشیاءکی تو پیاز کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کارنیل یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا ہے کہ پیاز کے اندر ایسے طاقتور اینٹی آکسائیڈنٹس ہوتے ہیں جو کینسر کی متعدد اقسام سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس کا غذا میں استعمال یا خام صورت یعنی کچھ مقدار میں روزانہ کچا کھانا بھی آپ کو اس جان لیوا مرض سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے جبکہ یہ مزاج پر چھائی مایوسی کو بھی دور بھگانے میں مددگار سبزی ہے۔

سبز چائے
متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں سبز چائے اور کینسر کے درمیان تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔ سبز چائے کا استعمال معمول بنالینے سے بریسٹ، مادر رحم، آنتوں، مثانے اور پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ کچھ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سبز چائے میں پائے جانے والے کیمیکلز درحقیقت چند طاقتور انسدادِ کینسر اجزاءمیں سے ایک ہوتے ہیں جس کی وجہ ان میں بڑی تعداد میں اینٹی آکسائیڈنٹس کا پایا جانا ہے۔
درج ذیل میں ایسے ہی امور دیئے جارہے ہیں جن کو اپنی طرز زندگی کا حصہ بنا کر آپ کینسر جیسے مرض کا شکار ہونے سے خود کو کافی حد تک بچا سکتے ہیں۔

میٹھے مشروبات سے دوری
میٹھے مشروبات جیسے سافٹ ڈرنکس وغیرہ نہ صرف موٹاپے اور ذیابیطس کا خطرہ بڑھاتے ہیں بلکہ معدے یا اس سے متعلقہ دیگر عضو میں کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ امریکا کی مینی سوٹا یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق کے مطابق جو خواتین بڑی مقدار میں چینی سے بھرپور مشروبات کا استعمال کرتی ہیں ان میں درون رحمی یا رحم مادر کے کینسر کا خطرہ 87 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، جبکہ موٹاپے اور ذیابیطس جیسے عوارض الگ عذاب جان بن سکتے ہیں۔

زیادہ کھڑے ہونا، کم بیٹھنا
حالیہ طبی تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے دن کا زیادہ تر وقت بیٹھ کر گزارنے کے عادی ہوتے ہین ان میں بڑی آنتوں اور معدے کے کینسر کا خطرہ جسمانی طور پر سرگرم افراد کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ایک الگ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جو لوگ ٹیلی ویژن کے سامنے بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں ان میں آنتوں کے کینسر کا خطرہ 54 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اگر تو کھڑا ہونا مشکل لگتا ہے تو ہر گھنٹے میں کم از کم کچھ منٹ کے لیے ارگرد کی چہل قدمی کو ہی اپنالیں جو اس موذی مرض کا خطرہ کم کرنے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے۔

دن میں کچھ دیر سورج کی روشنی میں گھومنا
ہمارے جسم میں وٹامن ڈی کی 90 فیصد مقدار سورج کی روشنی کے نتیجے میں آتی ہے اور اس میں غذا یا کسی سپلیمنٹ کا کمال نہیں ہوتا۔ وٹامن ڈی کی کمی خلیات کے درمیان رابطے کی صلاحیت کو گھٹا دیتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے اکھٹے ہونے کا عمل رک جاتا ہے اور کینسر کے خلیات کو پھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق وٹامن ڈی خلیات کے مناسب رابطے اور دوبارہ پیدا ہونے کے عمل کو بھی روکتا ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد میں بریسٹ، آنتوں، مثانے، مادر رحم اور معدے کے کینسر کا خطرہ بہت ہوتا ہے جبکہ ہڈیوں کی کمزوری، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر بھی آپ کو شکار کرسکتا ہے۔ مگر سورج کی روشنی میں بہت زیادہ رہنا جلد کے کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

اپنے بیڈروم میں تاریکی رکھنا
کئی طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رات کو روشنی میں رہنے سے خواتین میں مادر رحم اور بریسٹ کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ درحقیقت روشنی جسم میں میلاٹونین کی نارمل مقدار کی پیداوار کو کم کردیتی ہے جو ایسا دماغی کیمیکل ہوتا ہے جو نیند کے چکر کو کنٹرول کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں کینسر کے خلیات سے بھرپور ایسٹروجن کا اخراج بڑھ جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطاق ایسی خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے جو میلاٹونین کی بلند مقدار کے دوران سونا پسند نہیں کرتیں۔

حیوانی چربی کا کم استعمال
معتبر ہاورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ روزانہ 3 اونس سرخ گوشت کا استعمال کرتے ہیں ان میں امراض قلب یا کینسر کے باعث موت کا خطرہ 13 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح یالے یونیورسٹی کا اپنی ایک تحقیق میں کہنا ہے کہ جو خواتین حیوانی پروٹین سے بھرپور غذاﺅں کا زیادہ استعمال کرتی ہیں ان میں خون کے سرطان کی ایک قسم کا خطرہ 70 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کم چربی یا بغیر چربی جیسے مرغی یا مچھلی کو زیتون کے تیل میں بنانے سے اس خطرے کو ٹالا جاسکتا ہے۔

روزانہ کچھ دیر چہل قدمی
درجن بھر سے زائد تحقیقی رپورٹس میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو خواتین روزانہ ورزش کرتی ہیں ان میں بریسٹ کینسر کا خطرہ جسمانی طور پر کم سرگرم خواتین کے مقابلے میں تیس سے 40 فیصد تک کم ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق متعدل مقدار میں ورزش سے خون میں ایسٹروجن کی سطح کم ہوتی ہے جو ایک ایسا ہارمون ہے جو بریسٹ کینسر کے خطرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک اور طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہفتہ بھر میں چار گھنٹے تک چہل قدمی سے لبلبے کے کینسر کا خطرہ 50 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ اس معمولی سمجھی جانے والی جسمانی سرگرمی کے نتیجے میں انسولین میٹابولزم میں بہتری آنا ہے۔

تلی ہوئی اشیاءکا کم استعمال
جب غذاﺅں کو تیز آنچ پر تلا یا بھونا جاتا ہے تو اس میں ایک کینسر کا باعث بننے والے جز acrylamide تشکیل پانے کا امکان بھی پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ تیز آنچ میں بننے سے غذا میں آنے والی کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق acrylamide کے طویل عرصے تک جسم کا حصہ بننے سے مختلف اقسام کے کینسر لاحق ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے مسلسل طبی تحقیقات جاری ہیں اور ماہرین کا مشورہ ہے کہ فرنچ پرائز یا آلو کے تلے ہوئے چپس کے بہت زیادہ استعمال سے گریز کرنا زیادہ بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔

دودھ پیئے
حالیہ طبی تحقیقی رپورٹس کے مطابق کیلشیئم بڑی آنت کے کینسر سے تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ روزانہ 700 ملی گرام سے زیادہ کیلشیئم کا استعمال بڑی آنت کے کینسر کا خطرہ 45 فیصد تک کم کردیتا ہے۔ سننے میں سات سو ملی گرام بہت زیادہ مقدار لگ سکتی ہے مگر ایک کپ دودھ، کچھ مقدار میں دہی اور پالک وغیرہ کا استعمال اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ثابت ہوتا ہے۔

اسپرین سے فائدہ اٹھائیں
اگر ڈاکٹر آپ کو دل کی صحت بہتر بنانے کے لیے اسپرین لینے کا مشورہ دیں تو درحقیقت اس سے آپ کے جسم کو کینسر سے محفوظ رہنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ امریکا کے کینسر کے قومی ادارے کی ایک تحقیق کے مطابق جو خواتین روزانہ اسپرین کا استعمال کرتی ہیں ان میں مادر رحم کے کینسر کا خطرہ 20 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ تاہم اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر روزانہ اسپرین کا استعمال نہ کریں کیونکہ یہ آپ کے معدے کی نالی میں خون بہنے کا باعث بن سکتی ہے۔

تمباکو سے دوری
بیشتر افراد ممکنہ طور پر یہ جانتے ہیں کہ تمباکو نوشی پھیپھڑوں کے کینسر کا باعث بنتی ہے مگر سیگریٹ سے صرف یہی نقصان نہیں ہوتا۔ مایو کلینک کے مطابق سیگریٹ نوشی منہ، حلق، مثانے، لبلبے اور گردے سمیت کئی اقسام کے کینسر کا شکار بناسکتی ہے۔ تمباکو کھانے کی عادت منہ اور لبلبے کے کینسر کا باعث بن سکتی ہے یہاں تک کہ سیگریٹ کا دھواں بھی پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بڑھانے کے لیے کافی ہے۔

صحت مند وزن برقرار رکھنا
اپنے جسمانی وزن پر نظر رکھنا توند سے بچنے سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے، مایو کلینک کے مطابق صحت مند وزن برقرار رکھنا مختلف اقسام کے کینسر جیسے بریسٹ، مثانے، آنتوں، پھیپھڑوں اور گردے کے کینسر کا خطرہ کم کرتا ہے۔

دھماسہ بوٹی سے کینسر کا علاج
انجماد خون اور مختلف اقسام کے ھیپاٹائٹس کی دنیا میں سب سے بڑی اور کامیاب دوا
دھماسہ کے فوائد:یہ سب سے اچھا مصفّا خون ہے اور خون کے لوتھڑوں کو پگھلاکر خون کو پتلا کرتا ہے جس کی وجہ سے برین ہیمبرج، ہارٹ اٹیک، اور فالج وغیرہ سے حفاظت ہوتی ہے۔ اس کے پھول اور پتیوں سے کینسر اور تھیلاسیمیا کی ہر قسم کا علاج ممکن ہے۔
استعمال کرنے کا طریقہ
کینسر، تھیلیسیمیا، ہیپاٹائٹس، وغیرہ جیسے مہلک امراض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے دھماسہ کے پھول، پتے اوربیج اکٹھے کرلیں۔ اسے نیم گرم پانی سے دھونے کے بعد ہوادار سایہ میں خشک کر لیں۔ مکمل طور پر خشک ہے کے بعد اسے پیس کر پاؤڈر بنا لیں۔صبح دوپہر شام اس پاؤڈر کے ایک چھوٹے چمچ کو بچے کی خوراک میں شامل کرکے کھلائیں۔ بڑوں کے لئے اسی پاؤڈر کا ایک چھوٹا یا بڑا چمچ (عمر اور جسم کے وزن کے مطابق) بڑے کیپسولز میں بھر کے یا کسی خوراک میں ملا کر صبح دوپہر شام پانی کے ہمرا کھلائیں۔
۔۔۔ دھماسہ کے تازہ پتے، پھول اور بیج سب کو پانی میں گھوٹا لگا کر ایک کپ یا گلاس دن میں تین بار کھانے کے فوری بعد نوش فرمائیں۔ پندرہ سے تیس دن تک بیماری سے شفا ہوگی۔ البتہ مکمل صحت کے لئے سال بھر بھی مسلسل استعمال کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔ اگر پتے پھول اور بیج کم ملیں تو دھماسہ کی مکمل سبز شاخیں، کانٹوں سمیت بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں۔
۔۔۔ دھماسہ کو پیس کر تھوڑا سا شہد شامل کرکے آٹے کی طرح تیار کریں اور اس کی چنے کے بڑے دانے کے سائز کی گولیاں بنا لیں۔ یہی تین یا چار گولیاں دن میں تین بار کھانے کے فوراً بعد پانی سے نوش فرمائیں۔

کسی بھی قسم کے بلڈکینسر کیلئے دھماسہ بوٹی اکیلی ہی کافی ہے۔ دھماسہ کے پھول، پتے، بیج یا مکمل سبز شاخ نیم گرم نمکین پانی میں اچھی طرح دھو کر پانی میں گھوٹا لگا کر صبح دوپہر شام بعد غذا پی لیں یا صبح و شام اس کا قہوہ بنا کر خالی پیٹ نیم گرم پی لیں یا ہوا دار سائے میں خشک کرکے پاؤڈر بنا کر کپڑچھان کر کے ہزارملی گرام کیپسول بھر کے ہر کھانے کے بعد ایک یا دو کیپسول پانی کے ساتھ لیں، یا اسی پوڈر میں شہد ملا کر موٹے چنے کے برابر گولیاں بنا کرہر کھانے کے بعد ۲ یا ۳ گولیاں پانی سے نگل لیں۔ اگر کوئی ٹیومر کینسر ہو تو پھر دھماسہ کے ساتھ ساتھ سُمبلُو بوٹی اور ہلدی ہموزن پیس کر۱۰۰ملی گرام سائز کے کیپسولز میں بھر لیں۔ ایک کیپسول صبح و شام ، بعد غذا، ہمراہ دودھ نوش فرمائیں یا دھماسہ کی چند سبز شاخیں یا ایک چمچی پاؤڈر اور سمبلو بوٹی کا ایک ٹکڑا یا چوتھائی چمچی پاؤڈر، دونوں کا قہوہ بنا کر صبح و شام نیم گرم خالی پیٹ پی لیں۔ اس کے ساتھ لیموں کا جوس کیموتھراپی سے دس ہزار گُنا زیادہ طاقتور اور مفید ہے۔ موسم گرما میں، دن میں دو بار پانی کے ایک بڑے گلاس میں شہد کی ایک چمچ کے ساتھ بیکنگ سوڈا ¼ چائے کا چمچ اور لیموں کا تازہ جوس 2 چمچ ڈال کر پی لیں۔ سردیوں میں ایک کپ لیموں کے جوس میں ایک چھوٹا چمچ ہلدی ایک چھوٹا چمچ بیکنگ سوڈا اور آدھا کپ شہد ملا کر شیشے کے جار میں رکھیں۔چھوٹا چمچ دن میں تین بار نوش کریں۔ نیاز بویعنی تُلسی کے ۵ سے ۱۰ پتّے لیکر چٹنی بنا کر ہر کھانے کے ساتھ کھالیں۔ یہ ۱۶ قسم کے کینسر اور ۹ طرح کے ٹیومر کا علاج ہے۔اگر برین ٹیومرہو تو ساتھ لوکاٹ کی دو یا تین تازہ کونپلیں لے کر اس کا قہوہ بنا کر صبح و شام خالی پیٹ پی لیں۔ برین ٹیومر سمیت تمام قسم کے ٹیومر کینسر کے لئے بھی مفید ہے۔

کیلی فورنیا یونیورسٹی میں مریضوں پر تحقیق کرنے کے بعد یہ نتائج نکلےہیں کہ کینسر کے مریضوں کو انگور کے بیج کے رس کو کھانے سے بہت تیزی سے اس کے بہتر نتائج نظر آنے لگتے ہیں۔کالج کے میڈیکل فزیکس اور سائکولاجی کے سینئر پروفیسر ڈاکٹر ہارڈن بی جانس نے بتایا کہ تقریبا 25 سالوں تک چلی اس تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ انگور کے بیج سے نکلنے والا رس اس بیماری پر بہت تیزی سے اثر کرتا ہے۔ تحقیق میں پایا گیا ہے کہ انگور کے رس کا اثر اتنی تیزی سے ہوتا ہے کہ تقریبا 48 گھنٹوں کے اندر ہی ہمارے سامنے نتائج آنے شروع ہو گئے تھے۔

بلڈ کینسر کا دیسی علاج:
اجزاء: تمہ تازہ چار عدد۔ تخم بھنگ بیس گرام- فلفل سیاہ بیس گرام۔ بابچی بیس گرام۔ امبہ ہلدی بیس گرام
ترکیب: تمہ تازہ چار عدد لے کر ان کو اسطرح کاٹیں کہ دو انچ چوڑا اور آخر تک گہرا سوراخ ہو جائے اب ہر تمہ میں مذکورہ ادویہ کا سفوف ڈال کر بند کر دیں اور چھاؤں میں خشک کر لیں جب اچھی طرح تمہ خشک ہو جائیں تو سب اجزاء کو اچھی طرح پیس لیں اور شیشم کی کونپلوں میں مزکورہ سفوف کو اتنا کھرل کریں کہ گولی بنانے کے قابل ہو جائے۔ تو جنگلی بیر جتنی گولی بنالیں ۔ تلوں کا تیل آدھا کلو میں پچتر گرام ہلدی ڈال کر ہلکی آنچ پر جلائیں۔ جب ہلدی سوکھ کر راکھ ہو جائے تو چھان لیں۔ روزانہ ایک گولی ایک گلاس نیم گرم پانی میں دس قطرے مذکورہ تلوں کا تیل ڈال کر ایک گولی بلڈ کینسر والے کو دیں۔ انشاء اللہ ایک ماہ کے اندر شفاء ہو گی۔

گلے کے کینسر کا علاج:
اس میں تازہ تمہ (حنظل) شرط ہے۔ تازہ تمہ کو آلووں کی طرح اوپر سے چھیل لیں۔ پھر کتر کر کسی بڑے برتن یا پرات میں ڈال لیں۔ اگر ایک کلو کترا ہوا تمہ ہو تو اس میں چاروں اجوائنیں (ول، کرفس، دیسی، خراسانی) ملا کر اس طرح شامل کریں کہ ایک کلو تمے کے مقابلے میں یہ چاروں اجوائنیں آدھا کلو ہوں،مگر اجوائن خراسانی ایک تولہ سے زیادہ نہ ہو۔ باقی وزن تین اجوائنیں ڈال کر پورا کریں۔ اگر اجوائنیں آدھا کلو سے کچھ زیادہ بھی ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اسے آٹا گوندھنے کے طریقے سے گوندھیں۔ برتن تمہ کے پانی سے بھر جائے گا، اسے گرنے نہ دیں۔ ایک دو دن کے وقفے سے یہ گارا کیچڑ کی شکل اختیار کر لے گا۔ اب محنت کر کے اس کے بیج چن کر پھینک دیں۔ پھر پلاسٹک کی شیٹ پر ڈال کر سائے میں پھیلا دیں اور صبح وشام اسے الٹ پلٹ کرتے رہیں۔جب بالکل پتھر کی مانند خشک ہو جائے تو باریک کر کے کیپسول میں بھر لیں۔

ہم آپ کو کچھ ایسی غذاؤں کے بارے میں بتاتے ہیں، جن کے اندر قدرت نے اس موذی مرض کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔
بند گوبی ایک صحت بخش غذا ہے جو نہ صرف آپ کو مضبوط بناتی ہے بلکہ اسے دوا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے اندر موجود اجزاء خواتین کے ایک خاص ہارمون، ایسٹروجن کا مقابلہ کرتی ہے۔ یہ ہارمون خواتین کے اندر چھاتی کے سرطان کا سبب بنتا ہے اور ایسٹروجن کے نقصان دہ اثرات کو مفید اجزاء میں بدل دیتا ہے۔
گوبھی کی طرح گوبھی کا شمار بھی صحت کے لیے مفید سبزیوں میں ہوتا ہے۔ یہ سبزی بھی کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گوبھی کو مثانے، چھاتی، آنتوں، غدود اور اووری کے سرطان کا مقابلہ کرنے والی غذا قرار دیا جاتا ہے۔
۔مشروم کو وٹامن بی اور آئرن کا بہترین ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ذیابیطس، الرجی اور کولیسٹرول کا مقابلے کرتا ہے، رسولی سے تحفظ دیتا ہے، علاوہ ازیں یہ کینسر سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ دوران علاج سائڈ افیکٹس سے مقابلہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
سلفورافین‘ نامی مرکب گوبھی یا اس سے ملتی جلتی سبزیوں میں پایا جاتا ہے جو کینسر سے نمٹنے کے لیے انتہائی مفید ہے۔ یہ مرکب رسولی کو بڑھنے سے روکتا ہے۔
گاجر کے اندر دو اجزاء بیٹا کیروٹین اور فالکارینول پائے جاتے ہیں، جو کہ کینسر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن بعض تحقیقات کے مطابق ’بیٹا کیروٹین‘ کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے لیکن یہ ابھی تک حتمی نہیں ہے۔ گاجروں کا استعمال مختلف اقسام کے سرطان کا مقابلہ کرتا ہے جن میں منہ، گلے، پیٹ، آنتوں، مثانے، غدود اور چھاتی کا سرطان شامل ہے۔
میٹھے آلوؤں کے اندر موجود بعض اجزاء پھیپھڑوں، مثانے، گردے، جگر اور چھاتی کے سرطان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
چکوترا:چکوترا عمومی طور پر ذیابیطس سے بچاؤ اور جسم کو توانا رکھنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ کینسر کا مقابلہ کرنے والی غذا بھی ہے۔ بڑی آنت کے کینسر کو چکوترے کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔ چکوترے کے اندر موجود ’’فلیونائیڈز‘‘ کینسر کے خلیوں کی افزائش کو آہستہ کر دیتی ہے۔ واضح رہے کہ دورانِ علاج دواؤں کے ساتھ چکوترے کا استعمال مضر بھی ہو سکتا ہے۔
انگوروں کی کینسر کا مقابلہ کرنے والی غذا کے طور پر تحقیق ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن یہ یاد رہے کہ انگور کے بیج میں موجود ایک کیمیکل آنتوں کے سرطان، غدود یا پروسٹیٹ کینسر اور چھاتی کے سرطان کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔
ٹماٹر وٹامن اے، سی اور ای کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اس کے اندر کینسر کا مقابلہ کرنے والا ایک ’’جزو‘‘ بھی پایا جاتا ہے، جسے lycopene کہتے ہیں۔ یہ فری ریڈیکل اور کینسر کے خلیوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ٹماٹر کے اندر موجود وٹامن سی اْن خلیوں کو تباہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے جو آگے چل کر کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر اجزاء چھاتی کے سرطان، غدود یا پروسٹیٹ کینسر، منہ، لبلبہ اور مثانے کے کینسر سے تحفظ فراہم کر تے ہیں۔
چیری اور اسٹابریز کے اندر موجود اجزاء بھی کینسر سیلز بالخصوص پیٹ کے سرطان، بڑی آنت کے سرطان اور چھاتی کے سرطان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کے اندر موجود مادے جلد، مثانے، پھیپھڑوں اور غذائی نالی کے سرطان کے خلاف ایک مہلک ہتھیار ہے۔
پپیتے کے اندر موجود دو مرکبات ’’بیٹا کیروٹین‘‘ اور لائیکو پین ’’فری ریڈیکلز‘‘ کا مقابلہ کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک اور مرکب بھی خلیوں کو کینسر سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایک طرح سے پپیتا کینسر سے بچاؤ کا بہترین پھل ہے۔
نارنجی اور لیموں:نارنجی کے اندر limonene نامی اجزاء کینسر کا مقابلہ کرنے والے خلیے پیدا کرتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں فری ریڈیکلز کا مقابلہ کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہیں۔
السی کے بیج کینسر کے خلیوں کو پیدا ہونے اور بڑھنے سے روکتے ہیں۔ اسے غدود یا پروسٹیٹ کینسر اور چھاتی کے سرطان کا علاج سمجھا جاتا ہے۔
لہسن پیٹ کے کینسر، بڑی آنت، غذائی نالی، لبلبے اور چھاتی کے سرطان کے خطرات کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔مکن ہے کہ سبز چائے کو اب تک لوگ وزن گھٹانے ہی کے لیے استعمال کرتے رہے ہوں لیکن اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سبز چائے کینسر کے پھیلاؤ کو روکنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔سویابین کے اندر موجود کچھ اجزاء کو غدود اور چھاتی کے سرطان کو روکنے میں معاون سمجھا جاتا ہے۔ کینسر کے علاوہ سویابین کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔
خوراک: کھانے کے بعد صبح وشام ایک بڑا کیپسول یا دو چھوٹے کیپسول سادہ پانی سے کھا لیں۔ پانی ہمیشہ تازہ اور سادہ ہو، کسی بھی طریقے سے ٹھنڈا نہ کیا گیا ہو۔ بازاری شربت اور بوتلیں اور پیکٹوں میں بند تمام اشیا ہمیشہ کے لیے ترک کر دیں۔
ریشے دار غذائیں کھانے سے کینسر کا امکان کم ہوجاتاہے مگر بازار میں آنے والی نئی ریشے دار غذائیں اس سلسلے میں مناسب خیال نہیں کی جارہیں ،کیونکہ ان میں جو خالص قسم کا ریشہ ہوتاہے وہ غذاﺅں سے مشینوں کے ذریعے نکالا جاتاہے۔معمولی نظر آنے والی کریلے کی ترکاری سر اور گردن کے مہلک کینسر کے انسداد کی خصوصیت رکھتی ہے۔اس عام ترکاری کا رس سر اور گردن کے مہلک مرض کینسر کا علاج ہے۔عام کریلا سر اور گردن کے کینسر کے خلیوں کی افزائش روک دیتاہے۔سیاہ رنگ چاکلیٹ اور بعض غذائیں کینسر کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔انگور سرطان کے تحفظ میں میسر ہے جو انسانوں میں چھاتی ، غذود ، مثانے اور کئی قسم کے سرطان میں فائدہ مند ہے۔

زینٹک سے بچیں
زینٹک ٹیبلیٹ کا استعمال بہت عام ہے اور معدہ سے جڑی اکثر بیماریوں کا علاج اس ٹیبلیٹ سے کیا جاتا ہے۔اس ٹیبلیٹ کا استعمال کئی سالوں سے دنیا بھر میں ہورہا ہے ۔ معدہ کے السر کے علاج کے لئے یہ دوا قلیل مدت تک استعمال کی جاتی ہے۔ یہ دوامعالج کی تجویز کردہ ہوتی ہے اور بنا معالج کے مشورہ کے اس کے استعمال سے منع کیا جاتا ہے۔ یہ دوا معدہ میں تیزاب کی مقدار کو کم کرکے بد ہضمی اور جلن کی تکلیف سے نجات دلاتی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ نہ صرف معدہ میں تیزابیت کے مسئلے کو دور کرتی ہے بلکہ معدہ کی سوزش کو بھی کم کرتی ہے۔ لیکن حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے بعد اس دوا پر بہت سے سوالات اٹھیں ہیں۔ٓامریکی ادارے ایف ڈی اے کی جانب سے حالیہ تحقیق میں زینٹک ( رینیٹی ڈائن )میں مضر صحت اجزا سامنے آئیں ہیں ۔ اس دوا میں این نائٹرو سوڈ یمیتھلایمین( این ڈی ایم اے ) کی آمیزش ممکنہ طور پر کینسر کی مہلک بیماری کا باعث بن سکتی ہے۔ اس تحقیق کے بعد فوری طور پر دوسری دواؤں پر بھی پابندی لگائی گئی ہے جس میں این نائٹرو سوڈ یمیتھلایمین شامل ہوتے ہیں ۔ اس تحقیق کے سامنے آنے کے بعد دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی اس دوا پر عارضی پابندی لگا دی گئی ہے۔

نوٹ: دستبرداری: اس مضمون میں شامل مواد پیشہ ورانہ طبی مشورے ، تشخیص یا علاج کے متبادل نہیں ہے۔ کوئی بھی دوائی، غذا ، ورزش ، یا اضافی طرز عمل شروع کرنے سے پہلے ہمیشہ اپنے معالج سے رجوع کریں۔ یہ مضمون صرف تعلیمی مقاصد کے لئے بنایا گیا ہے-

کیٹاگری میں : صحت

اپنا تبصرہ بھیجیں