مرگی قابل علاج مرض

ہمارا جسم ایک مشین کی طرح ہے اور دماغ اس کا مدر بورڈ ہے جس میں مختلف کنیکشنز موجود ہیں۔ یہ بالکل کسی بجلی کے سوئچ بورڈ جیسا ہے، جس میں کبھی کوئی ایک کرنٹ ادھر سے ادھر ہوجائے تو مذکورہ کنیکشن جل بجھ ہونے لگتا ہے، اسی طرح دماغ کا کنیکشن بھی ادھر ادھر ہوجائے تو اس سے متصل جسم کا عضو جھٹکے لینے لگتا ہے، اس کے بعد جسم کا خود کار دفاعی نظام اسے شٹ ڈاؤن کردیتا ہے جس کے بعد مریض بے ہوش ہوجاتا ہے۔
مِرگی ایک دماغی بیماری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی دماغ میں جو برقی کرنٹ پایا جاتا ہے، اگر اُس کرنٹ کے نظام میں کچھ گڑبڑ واقع ہوجائے، تو نتیجے میں یہ مرض دورے کی صور ت ظاہر ہوتا ہے۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے دماغ میں پایا جانے والا برقی کرنٹ جب وقتی طور پربے قابو ہوجائے، تو نتیجے میں جسم پر دورے کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے،جسے طبّی اصطلاح میں ’’مِرگی‘‘ کہتے ہیں۔
مرگی یا مرگی کے دورے ایسی اصطلاحیں ہیں جو سخت طبی عدم توازن یا اس کی علامات پر دلالت کرتی ہیں۔ جن کی خصوصیت تشنج کے بار بار پڑنے والے دورے ہیں جن میں مریض یا تو مکمل بیہوش ہو جاتا ہے یا اس کا ہوش کم ہو جاتا ہے۔ اس میں جسم کے پٹھے کبھی پھڑپھڑاتے ہیں کبھی نہیں۔ عام اور زیادہ ہولناک دورے وہ ہوتے ہیں جن کو (Grand Mal Epilepsy) کہتے ہیں۔ ایک مثالی حملے میں مریض فورا” بے ہوش ہو جاتا ہے۔ بے ہوش ہوتے ہی مریض کے منہ سے چیخنے کی آوازیں آتی ہیں، جب کہ نرخرے، دھڑ، سر اور ہاتھ کے پٹھوں میں سخت اینٹھن پیدا ہو جاتی ہے۔ مریض اگر اس وقت کھڑا ہو تو زور سے زمین پر گر سکتا ہے۔ زبان دانتوں میں آکر زخمی ہو سکتی ہے۔ اعضا سخت ہو جاتے ہیں اور سر ایک طرف کو مڑ جاتا ہے۔ چہرہ پہلے زرد ہوتا ہے لیکن جب سانس رکتا ہے اور نظام تنفس کے عضلات میں تشنج رونما ہوتا ہے تو چہرہ پہلے نیلا اور پھر ارغوانی رنگ کا ہو جاتا ہے۔ بیس یا تیس سیکنڈ کے بعد دورے کا پہلا مرحلہ تقریبا یک لخت ختم ہو جاتا ہے اور دوسرا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ شدید مگر متوازن جھٹکوں سے عبارت ہوتا ہے جو سارے عضلاتی نظام کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ مرحلہ عموما” تیس سیکنڈ سے لے کر سو سیکنڈ تک رہتا ہے۔ اس مرحلے میں سانس گہری ہو جاتی ہے جو خراٹوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور منہ سے جھاگ دار تھوک نکلتا ہے جس میں اکثر خون کی آمیزش ہوتی ہے۔ زیادہ سخت دوروں کی شکل میں امعاے مستقیم اور مثانے کا اختیار ختم ہو جاتا ہے مریص پیشاب اور پاخانے کو روک نہیں پاتا۔ اس مرحلے کے بعد مریض سونے کی طرف مائل ہوتا ہے اور گھنٹہ بھر یا اس سے زیادہ وقت سوتا رہتا ہے
دورے کی عام علامات میں پٹّھوں کا کھنچاؤ،جسم کا اکڑنا،بدحواسی،اچانک بے ہوشی طاری ہونا، کھڑے کھڑے ٹھوکرکھائے بغیرنیچے گرجانا، منہ کا ٹیڑھا ہوجانا، وقتی طور پر سانس رُکنا( جس کی وجہ سے ہونٹ نیلے پڑسکتے ہیں)، منہ سے جھاگ نکلنا، دانتوں تلے زبان کاآجانا، بول وبراز خطاہوجانا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بیماری عُمر کے کسی بھی حصّے میں لاحق ہوسکتی ہے، لیکن بچّوں میں اس کی شرح بُلند ہے۔ نوجوانوں میں مِرگی سے متاثرہ نئے مریض نسبتاً کم پائے جاتے ہیں۔
مِرگی کا عارضہ عُمربھر مریض کو اپنی لپیٹ میں رکھ سکتا ہے، البتہ نوجوانی میں اس کے دوروں کی شدّت یا تو بہت ہی کم ہوجاتی ہے یا پھر ختم ہوجاتی ہے۔یہ ایک طویل المدّت مرض ہے، جس میں ادویہ کا استعمال کئی برسوں تک جاری رہتا ہے۔ اِس کی ابتدائی علامات ہر مریض میں مختلف ہوسکتی ہیں۔ تاہم ،زیادہ تر مریض دورے سے قبل چند مخصوص کیفیات سے دوچار ہوتے ہیں۔ مثلاً گھبراہٹ، خوف، تیزدھڑکن، چکّر آنا یا آنکھوں کے سامنے تارے سے آجانا، اشیاء کا حجم چھوٹا یا بڑا نظر آنا وغیرہ وغیرہ۔
وقت گزرنے کے ساتھ مریض کو ان مخصوص علامات کے شروع ہوتے ہی اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ اب اُسے مِرگی کا دورہ پڑنے والا ہے۔مرض لاحق ہونے کی وجوہ کے حوالے سےحتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سی وجہ دورے کا سبب بن سکتی ہے، البتہ بعض اوقات چند وجوہ دورےکی محرک بن سکتی ہیں، جن میں کم خوابی، تیز رفتار جھولا جھولنا، تیزی سے جھلملاتی روشنیاں دیکھنا، نشہ آور ادویہ کا استعمال، شدید تھکاوٹ، ٹی وی یا کمپیوٹر کا زائد استعمال، شدید بخار اور ذہنی امراض وغیرہ شامل ہیں۔
جب کہ بعض کیسز میں چند غدود کے افعال میں بےقاعدگی بھی اس مرض کا سبب بنتی ہے، تو کبھی دماغ پر لگنے والی کوئی چوٹ بھی اس مرض کا شکار کردیتی ہے۔البتہ نوزائیدہ یا کم عُمر بچّوں میں تیزبخار مِرگی یا بعض اوقات کسی اور ذہنی پس ماندگی کا سبب بن جاتا ہے۔اگر مرگی کے مریض کو یہ علم ہو جائے کہ کون سی وجہ دورے کاسبب بن سکتی ہے، تو وہ ان وجوہ سے اجتناب برت کے دورے سے ممکنہ طور پر محفوظ رہ سکتا ہے۔مِرگی کی درست تشخیص دماغی امراض کا ایک ماہر معالج ہی کرسکتا ہے۔
یوں تومِرگی کی کئی اقسام ہیں، لیکن سب سے عام قسم “tonic-clonic” یا “Convulsive seizures”ہے۔اس سے متاثرہ مریض دورے سے قبل چیخ مارتا ہے اور چند لمحوں کے لیے اس کا پورا جسم اکڑجاتا ہے، جس کے بعد جھٹکے لگنےلگتے ہیں۔ یہ کیفیت چند منٹ برقرار رہتی ہے،پھر وہ نڈھال یا تو بے ہوش ہوجاتا ہے یا پھر سوجاتا ہے۔ دورے کے دوران چوٹ لگنے اور دانتوں تلے زبان آکر کٹ جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے، نیز، بول و براز بھی خطا ہوسکتا ہے۔
عمومی طور پر دورے کا دورانیہ2سے4منٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ مرگی کی اس قسم میں دورے روزانہ بھی پڑسکتے ہیں اور دِن میں کئی بار بھی۔ یا پھر ان میں کئی مہینوں کا طویل وقفہ بھی آسکتاہے ۔مرگی کی دوسری قسم”partial seizure”کہلاتی ہے، جو جسم کے کسی ایک حصّے کو متاثر کرتی ہے۔ دورے کے دوران اس مخصوص حصّے میں جھٹکے لگتے ہیں۔ اِسی طرح ایک اور قسم “Myoclonic jerks seizure”ہے،جس میں جسم کا صرف ایک ہی پٹّھا متاثر ہوتا ہے۔ ایک اور قسم “Complex partial seizure” میں دورے کی ابتدا جھٹکے کی صُورت جسم کے کسی ایک حصّے سے ہوتی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ یہ جھٹکے بتدریج بڑھتے ہیں اور پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ایک دوسری قسم “Atonic seizure” یا”Drop seizure”ہے۔اس میں جسم کے تمام پٹّھے ایک دَم کچھ دیر کے لیے بےجان ہوجاتے ہیں۔ مرگی کی ایک شدید قسم”Status epilepticus”ہے، جس میں دورے کادورانیہ پانچ منٹ سے طویل ہوتاہے، جب کہ بعض کیسز میں دورے بار بار اتنی جلدی پڑتے ہیں کہ مریض پچھلے دورے سےابھی بہتر ہی نہیں ہوپاتا کہ دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔مرگی کی ایک اہم قسم “Temporal lobe epilepsy”ہے۔
اس کی علامات انتہائی پیچیدہ ہوتی ہیں۔ اس کے شکار مریضوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہونے کے ساتھ جذبات و خیالات میں تبدیلی کے علاوہ حرکت کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ مریضوں کا طرزِعمل بہت تبدیل ہوجاتا ہے اور ان سے غیرمتوقع افعال سرزد ہونے لگتے ہیں۔ بعض مریض غصّے کی حالت میں جنونی کیفیت میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان دوروں کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی طوالت کے بارے میں وثوق سے کچھ کہا جاسکتا ہے۔
بعض اوقات یہ دورے مہینوں اور کبھی برسوں پر محیط ہوتے ہیں۔ مِرگی کی حتمی تشخیص کا کوئی لیبارٹری ٹیسٹ نہیں ہے۔ عام طور پرتشخیص مریض کے دورے کی کیفیت دیکھ کر یا پھر اہلِ خانہ سے سُن کر کی جاتی ہے۔ عمومی طور پر مریض کی فیملی ہسٹری، بچپن سے لے کر دورہ پڑنے تک کی عُمر تک کی مکمل معلومات وغیرہ درکار ہوتی ہیں۔ تاہم، مرض کی تشخیص میں سی ٹی اسکین، ای ای جی(Electro encephalogram)اور ایم آر آئی معاون ثابت ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ مرگی میں مبتلا مریضوں کی اکثریت کا علاج گھر پر ممکن ہے، البتہStatus Epilepticusسے متاثرہ مریضوں کو کچھ عرصے کے لیے اسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔چوں کہ ادویہ کے استعمال کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے،تویہ صرف نیورولوجسٹ کی ہدایت کے مطابق ہی استعمال کی جائیں کہ ایک معالج ہی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ دوا کب، کیوں اور کتنے عرصے تک استعمال کرنی ہے۔ اگر بچّوں کو بخار کے دوران دو یا دو سے زائد بارجھٹکے لگیں، تو ان کا علاج مستقل بنیادوں پر ادویہ کے ذریعےممکن ہے،لہٰذا والدین کم عُمری کے بخار پرخاص توّجہ دیں کہ بعض اوقات معمولی سے کوتاہی بھی اس عارضے کے لاحق ہونے کی وجہ بن سکتی ہے۔

مِرگی سے متاثرہ بعض مریض بچپن ہی سے کسی جسمانی یا ذہنی بیماری کا شکار ہو تے ہیں یا کسی جسمانی یا ذہنی مرض کے سبب مِرگی کے دورے پڑنا شروع ہوتے ہیں۔ ان عوارض میں ذہنی پس ماندگی، ارتکازِتوجہ میں کمی، یاسیت،اسکول جانے سےانکار (School Refusal) سائیکوسس اور آٹزم وغیرہ اہم ہیں، جنہیں عموماً نظر انداز کردیا جاتا ہے۔یاد رکھیے، اگر مناسب علاج کروالیا جائے تو ان طبّی مسائل پر بھی بہت حد تک قابوپانا سہل ہوسکتا ہے۔ ذہنی پس ماندگی میں بچّے کی ذہنی نشوونما بتدریج یا پھر کسی ابتدائی مرحلے ہی میں رُک جاتی ہے، جس کا سبب دورانِ حمل ماں کا مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونا یا دوسری وجہ نوزائیدہ بچّوں میں شدید بخار یا زخم کا ہونا ہوسکتی ہے۔
ذہنی پس ماندگی کے شکار بچّوں کی جوں جوں عُمر بڑھتی ہے، روزمرّہ معمولات انجام دینے کا عمل سُست ہوتاجاتاہے۔ ایسے بچّے بسا اوقات جسمانی کم زوری کا بھی شکار ہوسکتے ہیں۔ ارتکازِ توّجہ میں کمی کے شکار بچّے بظاہر بالکل تن درست دکھائی دیتے ہیں، لیکن حد سے زیادہ شرارتی ہوتے ہیں اور کسی ایک جگہ ٹِک کربیٹھ نہیں پاتے ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی بےچین طبیعت کے سبب ان کا کوئی بھی کام درست طریقے سےانجام پاتا ہے اور نہ ہی وہ توجہ سے پڑھ پاتے ہیں۔ ان بچّوں میں چڑچڑےپن، اُداسی، بے سبب رونے، دیر تک سوتے رہنے یا جلد جاگ جانے، تعلیم پر توجہ نہ دینے، خوراک میں کمی اور یاسیت کی علامات عام پائی جاتی ہیں۔ بچّے کا اسکول جانے سے انکار ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، جس کا سبب اساتذہ یا کلاس فیلوز کے روّیے ہوسکتے ہیں، جن کے حل کے لیے اسکول کے ماحول، اساتذہ اور ہم جماعتوں کے روّیوں کا جائزہ لینا اور اس ضمن میں مناسب مشاوت ضروری ہے ۔بعض اوقات اسکول تبدیل کرکے بھی یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ان سب عوامل کا تذکرہ یوں ضروری ہے کہ اگر خدانخواستہ بچّے کو مِرگی کے ساتھ درج بالا شکایات بھی ہوں، خاص طور پر یاسیت کا عارضہ لاحق ہو، تو پھر علاج خاصا مشکل ہوجاتاہے۔اس صورت میں ذہنی امراض کے ماہرمعالج سے تفصیلی معائنہ اور نفسیاتی تجزیہ کروانا ناگزیر ہوجاتا ہے، تاکہ درست تشخیص اور مناسب علاج ہوسکے۔مِرگی سے متاثرہ بچّوں کے والدین پر یہ ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر خاص نظر رکھیں۔ اگر معمول سے ہٹ کرکوئی بات نظر آئے، تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
مِرگی سے متاثرہ زیادہ تر مریضوں کی ذہنی استعداد نارمل ہوتی ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر نمایاں امور انجام دے سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایسے بےشمار معروف افراد موجود ہیں، جنہوں نے مِرگی کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باوجود ایک نارمل فرد کے طور پر زندگی گزاری۔ مولانا عبدالستّار ایدھی بھی اس مرض سے متاثر تھے،اس کے باوجود انہوں نے دُنیا بَھر میں خدمت خلق کے حوالے سے کام کیا۔ پھر امریکی صدر روز ویلٹ سمیت دیگر کئی معروف افراد بھی اس مرض میں مبتلا رہے۔
یہ افراد تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں، کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں حصّہ لے سکتے ہیں۔ اسی طرح ملازمت بھی کرسکتے ہیں اور شادی بھی۔ مِرگی سے متعلق جہاں عوام النّاس میں معلومات عام کرنے کی اشد ضرورت ہے،وہیں ہر شہری پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی ایسے متاثرہ کو جانتے ہیں، جو علاج سے محروم ہے، تو نہ صرف مریض ،بلکہ اُس کے اہلِ خانہ کی بھی رہنمائی کریں۔ یاد رہے، پاکستان میں چند فلاحی اداروں اور تمام سرکاری اسپتالوں میں مِرگی کے مفت علاج کی سہولت دستیاب ہے۔
دورہ پڑنے کی صُورت میں اہلِ خانہ بعض احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں، تو بہتر ہے۔ اوّل تو خود کو پُرسکون رکھیں اور مریض کو مناسب جگہ پر لٹا دیں۔ اردگرد کی اشیاء ہٹا دیں، تاکہ مریض اور ان اشیاء کو کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔ جھٹکوں کے دوران مریض کے ہاتھ، پائوں دبائو سے روکنے کی کوشش نہ کریں، ورنہ ہڈیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔نیز، کوئی شے کھلانے یا پلانےسے بھی اجتناب برتا جائے۔ اگر سڑک پر چلتے چلتے دورہ پڑجائے، تو مریض کو فوراً وہاں سے ہٹا دیں۔
عینک وغیرہ اُتار دیںاور اگر گلے میں ٹائی، مفلر ہو تو اُسے ڈھیلا کردیں۔ دورے کے بعد مریض کو کروٹ کے بل لٹا دیں اور اگر منہ میں رطوبت وغیرہ ہو، تو صاف کردیں۔ دورہ ختم ہونے کے بعدبعض مریض ذہنی طور پر ماؤف ہوجاتے ہیں،مگریہ کیفیت بھی وقتی ہوتی ہے،لہٰذا مریض کو کچھ یاد دلانے کی کوشش نہ کی جائے۔اگروہ سونا چاہے، تو آرام کرنے دیں اورجب تک خود بیدار نہ ہو، زبردستی نیند سے نہ اُٹھائیں۔ علاوہ ازیں، مریض معالج کی ہدایات پر سختی سے عمل کریںاورمتوازن غذا استعمال کرنے کے ساتھ َھرپور نیند لیں۔ایک صحت مند فرد کی طرح زندگی گزاریں اور خود کو مصروف رکھیں، تاکہ دھیان بار بار مرض کی طرف نہ جائےاور ذہنی دباؤ سے بھی دُور رہا جاسکے۔ البتہ مشینری کے استعمال سے گریزکریں اورجب تک معالج اجازت نہ دے ڈرائیونگ بھی نہ کی جائے۔
علاج کے ساتھ معالج سے مشورہ کرکےیوگا اور ورزش بھی کی جاسکتی ہے۔علاوہ ازیں، متاثرہ مریضوں کا مذاق ہرگز نہ اڑائیں۔

چونکہ اس مرض میں مریض کو اچانک بے ہوشی ہوتی ہے اور غشی کا دورہ پڑتا ہے اور مریض اپنی اس حالت سے بے خبر ہوتا ہے اس لئے کچھ مریض خود کو پاگل ماننے لگتے ہیں۔ مرگی کے میں مبتلا لوگوں کو اپنی اس بیماری کا علم اور اس کے علاج کے طریقے معلوم ہونے چاہئیں ، تاکہ ان کی عزت ندس اور اعتماد میں کمی نہ آئے ۔
مرگی کے مرض میں کام آنے والے چند مفید مشورے اور علاج
۱۔ مرگی کے مریضوں کو گہرے پانی ،نہر ،کنویں سے حتی الامکان دور رہنا چاہئے ۔مریض کو آگ کے پاس بھی نہیں جانا چاہئے ۔
۲۔مریض کو اکیلے اور لمبے سفر کے لئے گاڑی نہیں چلانی چاہئے ۔
۳۔ مریض کو مستقل قبض یا دست نہیں ہونا چاہئے ۔
۴۔ مریض کو خود کو ذہنی تکان ،فکر ،پریشانی الھجنوں اور صدموں سے بچانا چاہئے۔
۵۔ اس مرض مے علاج کے لئے شرط یہ ہے کہ دوا مسلسل کھلائی جائے ،صحت بخش خوراک اور یونانی دواؤں کے ساتھ ساتھ ایلو پیتھک دواؤں کا بھی ستعمال جاری رکھنا چاہئے ۔
۶۔ مرگی کے مریضوں کو محنت اور مشقت والے کاموں سے گریز کرنا چاہئے۔
۷۔ذہنی سکون کی دواؤں کے غلط استعمال سے بھی مرگی کا خطرہ بڑھتا ہے اس لئے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ایسی کوئی دوا استعمال نہیں کرنی چاہئے ۔
۸۔ مرگی کے مریض کو اپنی نیند پوری کرنی چاہئے۔سردی ،کھانسی اور بخار دیر تک نہیں رہنا چاہئے ۔
۹۔ تمباکو ،سگریٹ ،چھالیہ ،گٹکا یا پان کا استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔
۱۰۔ مرگی کے مریض کو پانی زیادہ پینا چاہئے ۔بعض اوقات جسم میں پانی کی کمی کے باعث بی مرگی کا دورہ پڑ سکتا ہے ۔
۱۱۔گلوٹن والی غذائیں (سفید آٹے سے بنی ڈبل روٹی ،سفید چاول اور پیزا )اور سویا سوس بھیمرگی کے دورے کا باعث بنتا ہے اس لئے ان کا استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔
۱۲۔ گائے کا دودھ یا اس سے بننے والی چیزوں کی جگہ بکری کا دودھ استعمال کرنا مفید ہے
۱۳۔ بازار کی فروزن پروڈکٹس (گوشت اور سبزیاں )جن میں ایم ۔ایس ۔جی ہوتا ہے دماغ کے خلیوں کو متاثر کرتا ہے اس لئے ان کا مستقل استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔
۱۴۔ دواؤں کے ساتھ مراقبہ ، ورزش اور یوگا کرنا اس مرض میں شفاء دیتا ہے ۔
۱۵۔ یونانی دواؤں میں دماغ کو سکون دینے والے خمیرے کھانے چائیں ۔
۱۶۔ مرگی کے مرض میں جسم کے گلوکوز اور آیوڈین کی مقدار کو اعتدال میں رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے ،عام طور پر خون میں گلوکوز کی مقدار میں تیزی سے اضافہ ہونے یا کمی ہونے کے باعث مرگی کا دورہ پڑ سکتا ہے اس لئے (مصنوعی مٹھاس ، سوفٹ ڈرنکس ،ہائی کاربو ہائڈریٹس والے کھانے )اور پھلوں میں انگور ،کشمش ،آم ،کیلا اور کھجور کو اعتدال کے ساتھ کھانا چاہئے ۔
۱۷۔نمک جتنا کم کر دیا جائے اس سے مریض کے جلدی ٹھیک ہونے کے مکان پیدا ہوتے ہیں ۔
۱۹۔ مریض کے گلے میں جائفل ڈال کر رکھنا چاہئے ۔
۲۰۔پانچ چمچ پیاز کا عرق پانی میں ملا کر صبح پینے سے مرگی آنا بند ہو جاتی ہے۔
۲۱۔تلسی کے سبز پتوں کو پیس کر مرگی کے مریض کے سارے جسم پر روزانہ مالش کرنے سے فائدہ ہوتا ہے ۔
۲۲۔دودھ میں لہسن ابال کر روزانہ کھلانے سے مرگی کا مرض دور ہوجاتا ہے یہ نسخہ لمبے عرصے تک استعمال کریں ۔
۲۳۔سونٹھ کا پاؤڈر لیموں کے ساتھ چاٹنے سے فائدہ ہوتا ہے ۔
24-علاج نسخہ نمبر 1 : مرگی کیلئے : ھوالشافی : عقرقرحا سو گرام ، مویز منقیٰ دو سو پچاس گرام ۔ عقر قرحا کو باریک پیس لیں اور مویز منقیٰ میں ملائیں ، معجون تیار کر لیں ، صبح و شام آدھ چمچ مریض کو کھلائیں ۔ دوسرے مہینے سے معجون ایک چمچ صبح و شام کھلائیں ۔ ان شاء اللہ تین سے چار ماہ کے استعمال کے بعد زندگی بھر مرگی کا دورہ نہیں ہو گا ۔ مجرب ہے
25–مرگی سے نجات کے لیے آسان اور گھریلو نسخہ درج ذیل ہے ۔ ‏‏‏‏اس کے لیے ہمیں چاہیے ‏‏‏‏ : مولی : پتوں سمیت خشک لیموں کا رس : ایک عدد ‏‏‏‏ترکیب و طریقہ استعمال ‏‏‏‏ : مولی کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر دھوپ میں اچھی طرح سکھا لیں اور پتوںکو بھی خشک کر لیں ۔ اب مولی کو بمعہ پتوں کے باریک پیس لیں اور روزانہ لیموں کے تازہ عرق کے ساتھ ایک ماشہ صبح نہار منہ مریض کو کھلائیں ۔ ‏‏‏‏تین ہفتے میں ہی نتائج سامنے آ جائیں گے ‏‏‏‏

مرگی کے مریض کیلئے کھانے پینے میں سب سے زیادہ خطرناک ڈسپرین یا خون پتلا کرنے والی ادویات اور پیپسی کوک ہے
اس بیماری کا مستقل علاج تو تاحیات ممکن نہیں لیکن اگر مریض مستقل کسی نیوروفزیشن کی تجویز کردہ ادویات لیتا رہے اور اسکی ہدایات پر سختی سے عمل کرے تو مرگی کا دورہ نہیں پڑتا

مرگی کے دورے پانچ درجہ پر ہوتے ہیں۔
۱۔ جسم کے کسی حصہ پر سرسراہٹ اور چیونٹیوں کا رینگنا، ڈراؤنی شکلیں نظر آنا۔
۲۔ اس کے بعد چیخ مارنا۔
۳۔ تشنج ہو جانا۔
۴۔ سارے جسم کا اکڑ جانا اور جھٹکے لگنا۔
۵۔ بے ہوش ہو جانا (بے ہوشی عموماً نیند میں تبدیل ہو جاتی ہے اس کے بعد مریض ہوش میں آ جاتا ہے۔)
مرگی اور ہسٹریا کے دورے کی علامات بالکل مشابہ ہوتی ہیں۔ اس لیے معالج کو ان کا فرق جاننا ضروری ہے۔
مرگی بالعموم مردوں کو ہوتی ہے اور ہسٹریا عورتوں کو۔
مرگی کے دورہ سے پہلے سرسراہٹ ہوتی ہے۔ دورہ کے دوران مکمل بے ہوشی ہوتی ہے۔ دورہ ہر جگہ پڑ سکتا ہے۔ دورہ کے وقت مریض زبان کاٹ لیتا ہے۔ اور غیر ارادی طور پر بول و براز خارج ہو جاتا ہے۔ تشنج کی حرکات منظم ہوتی ہیں۔ لیکن ہسٹریا کے دورہ سے پہلے ایسی کوئی علامت نہیں ہوتی۔
علاج: اس مرض کا علاج تین حصّوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ دورہ کی علامات شروع ہوتے وقت علامات رفع کرنے کا علاج کرنا تاکہ دورہ رُک جائے۔
۲۔ دورہ مرض ہونے کے بعد دورہ رفع کرنے کا علاج۔
۳۔ مرض کا مکمل استیصال اور شافی علاج۔
بطور حفظ ماتقدّم جس وقت دورہ کی علامات شروع ہوں اور جس جگہ سرسراہٹ شروع ہو۔ اُس جگہ کو مضبوط باندھ دیں۔ یا چُٹکی بھریں۔ یا اُس جگہ سردی یا گرمی پہنچائیں۔ یا بجلی لگائیں۔ اور اُس جگہ پلاستر لگانا بھی مفید ہوتا ہے، اعضاء کو زور سے کھینچنا، اچھلانا، حقنہ کرنا، قے کرانا، جلاب دینا وغیرہ علامات کو روکنے کے لیے بہترین تدابیر ہیں۔
اب تدابیر کا تعلق مریض یا مریض کے گھر والوں سے ہے۔ اور طبیب کے پاس پہنچنے تک یہ تمام مراحل گُزر کر دورہ پڑ چکا ہوتا ہے۔ اگر ایسی صورت میں طبیب کے پاس مریض آئے تو اس کو اِن مندرجہ بالا تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔
علاج دورہ مرض: دورہ کی حالت میں مریض کو صاف، کھلی اور ہوادار نرم جگہ پر لٹائیں۔ سر کو اونچا رکھیں اور زبان کو دیکھیں کہ کہیں دانتوں کے نیچے آ کر کٹ نہ جائے۔ دانتوں کے درمیان کپڑے کی گدی یا بوتل کا کارک دے دیں۔ منہ پر سرد پانی کے چھینتے ماریں، سر پر برف لگائیں، ایمائیل نائٹریٹ سونگھائیں، اگر کامل بے ہوشی ہو جائے تو ہوش میں لانے کی کوشش نہ کریں۔ تھوڑی دیر بعد مریض خودبخود ہوش میں آ جائے گا۔ دورہ دور ہونے کے بعد اگر سر درد ہو تو کوئی مسکن دوا اسپرین وغیرہ دے دیں۔
مرض کا مکمل استیصال اور شافی علاج
اصل مرض کے سبب کو معلوم کر کے اُسے دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مریض کو قبض ہرگز نہ ہونے دیں۔ محرکات، شراب، چائے، قہوہ، تمباکو اور جوش جذبات سے پرہیز کرائیں۔اگر پیٹ کے کیڑوں کی وجہ ہو تو ان کو رفع کریں، معدہ، امعا جگر کے افعال کو درست کریں۔

مرگی کے علاج میں تمام ادویات سے برومائیڈ کا استعمال بے حد مفید ثابت ہوا ہے۔ روزانہ ۳۵ سے ۹۰ گرین تک برومائیڈ دی جا سکتی ہے۔ اور دورے رُک جانے کے بعد بھی تقریباً دو سال تک یہ دوا جاری رکھنی چاہیے۔
چنانچہ دورے رک جانے کے بعد ۱۵ گرین سے ۳۰ گرین کی مقدار میں دن میں تین بار دینا شروع کریں۔ پھر حسب ضرورت اس کی مقدار کو گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر ۳۰ گرین کی روزانہ تین خوراکیں دینے سے دورہ نہ رکے تو پھر اس دوا کا فائدہ کم ہوتا ہے۔ اور یہ اکثر دوا کے ناقص ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس دوا کا بہترین وقت دورہ شروع ہونے کی ابتدا ہے۔ مثلاً دورہ مرض سے تین چار گھنٹے پہلے ایک بڑی خوراک پلائیں۔
رات کو نیند میں دورہ پڑتا ہو تو ۳۰ گرین کی ایک خوراک سوتے وقت کھلائیں۔
اگر صبح کو بیدار ہوتے وقت دورہ پڑتا ہو تو اُس کو سوتے وقت ایک خوراک اور ایک صبح بیدار ہوتے ہی پلا دیں۔ دورہ رُک جائے گا۔
برومائیڈ کا استعمال اُس وقت تک جاری رکھنا چاہیے۔ جب تک کہ اس کا پورا پورا اثر نہ ہو جائے۔ اگر اس کے کچھ زہریلے اثرات ظاہر ہوں تو کچھ عرصہ کے لیے اس کا استعمال بند کر دینا چاہیے۔ دوران استعمال مریض کو غذا بے نمک دینی چاہیے۔
اس کے استعمال سے اگر دورہ مرض رک جائے تو دورہ رکنے کے بعد بھی دو سال تک متواتر اس دوائی کو استعمال کرنا چاہیے۔ پھر آہستہ آہستہ کم کرتے جانا چاہیے اور کبھی کبھی ناغہ کر لینا چاہیے۔
اکسیر صرع: پوٹاسیم برومائیڈ، سوڈیم برومائیڈ، ایمونیم برومائیڈ سٹرونشیم برومائیڈ، لیتھم برومائیڈ، ہر ایک مساوی الوزن باریک پیس کر سفوف تیار کریں۔
مقدار خوراک ۱۵ گرین سے ۳۰ گرین روزانہ تین خوراک دیں۔
اکسیر صرع جدید: اپانوٹن کیپ شول ۱ ۱/۲ گرین
ایک ایک کیپ شول دن میں تین بار غذا کے بعد دیں۔ مرگی کے دورے روکنے اور اس کے مکمل علاج کے لیے بہترین دوا ہے۔
دوائے جدید: فیمی ٹون ٹیبلٹ ۳ گرین۔ ایسی ایک ٹکیہ دن میں دو بار کھلائیں۔ مرگی کے لیے مفید ہے۔
مکسچر: پوٹاسیم برومائیڈ ۱۵ گرین، سوڈا بائی باربونیٹ ۷ ۱/۲ گرین، لائیکوار آرسینی کیلس ۳ منم، ایکوا ایک اونس۔
ایسی ایک ایک خوراک دن میں تین بار پلائیں۔
سفوف صرع: لیومینال ۱/۵ گرین، اٹروپین ۱/۴۰ گرین، ملک شوگر ۵ گرین۔ ایسی ایک ایک پڑیہ دن میں تین بار دیں۔ ہر پانچ چھ دن کے استعمال کے بعد دو دن کا وقفہ دے لیا کریں۔ صرع (مرگی) کے لیے مفید ہے۔
اگر برومائیڈ کے استعمال سے مرگی کو فائدہ نہ پہنچے تو بوریکس کے استعمال سے مرگی کی علامات رفع ہو جاتی ہیں۔
مرگی کی پیٹنٹ ادویات
ڈائی لنسٹین (پارک ڈیوس)
مقدار خوراک ایک کیپ شول دن میں تین بار دیں مرگی کے لیے مفید ہے۔
ٹرائی ڈیٹون
مقدار خوراک ایک کیپ شول دن میں دو بار۔ خفیف مرگی کے لیے بہت مفید ہے۔
(نوٹ) یہ زہریلی دوا ہے، احتیاط سے استعمال کریں۔
مائی سولین (ٹیبلٹ)
مقدار خوراک تین ٹکیہ صبح و شام دیں۔ بچوں کو نصف ٹکیہ دن میں دو بار دیں۔ یہ ایک جدید دافع تشنج دوا ہے۔ شدید مرگی کے لیے بے حد مفید ہے۔
ڈائی فینل ہائی ڈنٹوئیں وڈیم
مقدار خوراک ایک کیپ شول دن میں تین بار۔ یہ شدید مرگی میں بہت موثر اور مفید ہے۔ جبکہ شدید دورے پڑ رہے ہوں۔
مسل ٹوئن (سینڈوز)
شروع علاج میں نصف ٹکیہ روزانہ ایک بار ہر ہفتہ۔ اس کی مقدار خوراک بڑھاتے جائیں۔ یہاں تک کہ ایک ٹکیہ دن میں تین بار دی جا سکے۔ یہ خطرناک دوا ہے۔ کسی ماہر ڈاکٹر کی زیرنگرانی استعمال کرنی چاہیے۔
سرپینیا Serpina
مقدار خوراک ۱/۲ ٹکیہ دن میں تین بار دیں۔ بے خوابی، مرگی، تشنج کے لیے مفید ہے۔
سرپاسیل Serpacil
یہ بھی مرگی کے لیے مفید ہے۔
علاوہ ازیں الیگزر برومائیڈ، دیلیرین، تھری برومائیڈز، کیلسیم برونیٹ سونی رائل، ایمی نال وغیرہ بھی اس مرض کے لیے مفید ہیں۔
مکسچر برائے صرع: پوٹاسیم برومائیڈ ۱۵ گرین، سوڈیم برومائیڈ ۱۰ گرین، ایمونیم برومائیڈ ۵ گرین، لائیکوار آرسینی کیلس ۳ منم، ٹنکچر کلمبا ۳۰ منم، ایکوا ۱ اونس۔
ایسی ایک ایک خوراک دن میں تین بار دیں۔ دو خوراک صبح و شام کھانا کھانے کے آدھ گھنٹہ بعد اور تیسری خوراک رات کو سوتے وقت آدھے گلاس پانی میں ملا کر دیں۔ مرگی کے لیے مفید و مجرب ہے۔
اکسیر مرگی: سوڈیم لیومینال ۱/۲ گرین، ملک شوگر ۵ گرین۔ صبح و شام پانی کے ساتھ ایک ایک خوراک دیں۔ ہر پانچ دن کے بعد دو دن دوائی کا ناغہ کریں اور تقریباً دو ماہ استعمال کریں۔ مرگی کے لیے بینظیر مجرب دوا ہے۔ سدرددار کو بھی مفید ہے۔
مرگی کے مریض کو ملیریا بخار کی صورت میں کونین سلفیٹ نہیں دینی چاہیے۔ فینو باربیٹون سوڈیم بھی اس مرض کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
آتشک کی وجہ سے ہونے والی مرگی کے لیے پوٹاسیم آئیوڈائیڈ بے نظیر دوا ہے۔
مرگی کا ہومیوپیتھی علاج
دورہ کے وقت ایمائیل نائٹراس سُونگھانے سے دورہ رفع ہو جاتا ہے۔
ہر ایک قسم کی مرگی کے لیے بیلاڈونا ۴ مفید ہے۔ بچوں میں خصوصیت سے پرانی مرگی کے لیے خاص کر جبکہ کسی حصہ سے پیپ یا رطوبت نکلتی ہو تو سلیشیا ۳۰ دیں۔ جبکہ بیلاڈونا کے استعمال سے فائدہ نہ ہو تو سلفر ۳۰ کا استعمال بہت مفید ہے۔

جدید اور خفیف دورے کے (خصوصاً داہنی طرف) اور دورے کے درمیان اگر پیشاب خودبخود خارج ہو جائے تو کاسٹیکم ازحد مفید ہے۔ دورے کے پہلے چکر آئیں۔ آنکھوں کے سامنے چنگاریاں، چہرہ نیلگوں ہو تو ہائیوسائمس دیں۔
اگر سر کی چوٹ کی وجہ سے مرگی کی علامات پیدا ہو جائیں تو حاد حالتوں میں آرنیکا ۳۰ دن میں تین خوراک ایک ہفتہ تک کھلانا اس مرض کا شافی علاج ہے۔ اگر مرض مزمن ہو تو اونچی طاقت میں آرنیکا استعمال کریں۔ معمول و مجرب ہے۔
نیز کلکیریا کارب ۳۰، اگنیشیا ۳۰، آرسینک البم ۳۰، نکس دامیکا ۳۰ بھی مرگی کے لیے مفید ادویہ ہیں۔
مرگی کے مریضوں کا ہومیوپیتھک علاج اور ادویات
ہومیوپیتھی میں 50 سے زائد ادویات ایسی ہیں کہ جو مرگی کے مریضوں کے علاج میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ ایک ماہر ڈاکٹر مکمل تفصیل لے کر کیس کو سمجھتا ہے تو مریض کی علامات، مزاج اور خاندانی ہسٹری پر فٹ بیٹھنے والی دوا، اُس کی خوراک اور طاقت کا انتخاب کرتا ہے۔ میرے تجربے میں نیچے دی گئی ادویات اکثر مثبت نتائج دیتی رہی ہیں۔ مکمل علاج کے لئے اپنے اعتماد کے ڈاکٹر سے کیس ڈسکس کرنا ضروری ہے۔
۔ مرگی کے مریضوں میں دیگر کئی وجوہات کے علاوہ جذباتی پن، شدید غصہ، بے سکون نیند، ڈر خوف اور فوبیاز، دماغی مشقت یا ماہواری کا دب جانا اہم ترین وجوہات ہیں۔ بہت دفعہ جب یہ وجوہات اور اسباب کنٹرول ہو جاتے ہیں تو مرگی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
بوفو (Bufo Rana): مرض اگر زیادہ پرانا نہ ہو اور فیملی ہسٹری میں بڑی بیماریاں عام نہ ہوں تو ہومیوپیتھک دوا بوفو (بفو) سے علاج کا آغاز کرنا چاہئے۔ بفو کا مریض دورے سے پہلے چڑچڑا ہو جاتا ہے اور اُوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگتا ہے۔ اس کی سنسناہٹ اعضائے تناسل یا معدے سے شروع ہوتی ہے۔ دوا کی خوراک اور پوٹینسی (طاقت) مریض کی عمومی صحت اور تکلیف کی شدت کے مطابق منتخب کی جانی چاہئے۔
کلکیریا کارب (Calcarea Carbonica): اگر مرض کافی پرانا ہو اور مریض کی فیملی ہسٹری میں کافی مسائل ہوں تو کلکیریا کارب بہت کامیاب دوا ثابت ہو سکتی ہے۔ بچوں کی مرگی اور تشنج میں، مَیں نے اسے بہت مفید پایا ہے۔ اِس دوا کی ضرورت تب پڑتی ہے کہ جب ہڈیاں نرم پڑ گئی ہوں یا بچے دانت مشکل سے نکال رہے ہوں۔ ہاتھ پاؤں عموماً ٹھنڈے یخ ہوں۔ سوتے میں سر اور گردن پر خوب پسینہ آتا ہو۔ کلکیریا کارب کی سنسناہٹ پیٹ کے نچلے حصے سے شروع ہوتی ہے یا یوں محسوس ہوتا ہے کہ ٹانگ پر چوہا دوڑ رہا ہے۔
اگر اِس دوا میں پوٹینسی اور خوراک مریض اور مرض کی نوعیت سے زیادہ دی گئی تو شدید اور لمبا ردِعمل کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ مریض کے دورے بڑھ سکتے ہیں۔ اِس لیے کیس کو تفصیل سے لینا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔
سلیشیا (Silicea): مرگی کے دورے چاند کے گھٹنے بڑھنے پر ہوں تو سلیشیا مفید دوا ہے۔ اگر دورے صرف نیند کے دوران ہوں تو بھی سلیشیا ہی کامیاب دوا ہے۔ عام طور پر نئے چاند پر دورے بڑھتے ہیں۔ مریض کو دورے سے پہلے سردی کا احساس بھی ہوتا ہے اور کمر میں کچھ عجیب محسوس ہوتا ہے۔ اِس دوا کو بار بار نہیں دہرانا چاہئے۔
ابسینتھئیم (Absinthium): اس ہومیوپیتھک دوا کا چرچا مرگی کےعلاج میں ہومیوپیتھک لٹریچر میں بہت پڑھا ہے اور سینئر یورپی ڈاکٹرز سے سنا ہے تاہم میرے تجربے میں اس کا اِستعمال خاطر خواہ فوائد نہیں دے سکا۔ ڈاکٹر ولیم بورک ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے چند انتہائی محترم ناموں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنے مٹیریا میڈیکا میں لکھا ہے کہ یہ دوا مرگی کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے۔ مرگی کا دورہ آنے سے پہلے اعصاب میں جھٹکے آتے ہیں۔ سر میں یکایک اور بہت شدت کا چکر آتا ہے، مریض بڑبڑاتا ہے، ہذیان آتا ہے، اس کے بعد بے ہوشی آ جاتی ہے۔ عصبی جوش اور بے خوابی، دماغِ مقدّم کی سوزش۔ ہسٹیریا اور بچوں کے تشنج بھی اس دوا سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ یہ دوا کھمب کے زہریلے پن کے لئے تریاق کا درجہ رکھتی ہے۔ رعشہ، اعصاب اور پٹھوں میں جھٹکے آئیں، پٹھوں میں کھچاؤ آئے، جوش ہو اور بچوں کی بے خوابی ہو تو اِس دوا سے مکمل علاج ممکن ہے۔
کیوپرم (Cuprum Metallicum): مرگی کے مریضوں کی اکثر تکلیفیں اِس مرض کا مرکزی نقطہ ہیں۔ اس کے تشنج انگلیوں اور انگوٹھوں سے شروع ہو کر اوپر کو پھیلتے ہیں۔ مریض کا چہرہ اور ہونٹ نیلے ہو جاتے ہیں۔ آنکھوں کے ڈھیلے گھومتے رہتے ہیں۔ بعض دفعہ مریض کی چیخ بڑی ہی ڈراونی اور تیز ہوتی ہے۔ یہ بہت گہرا اثر کرنے والی دوا ہے اِس لیے اِس کا اِستعمال خوب سوچ سمجھ کر ہی کرنا یا کروانا چاہئے۔
کاسٹیکم (Causticum): جس مریض میں اُداسی اور مایوسی کا پہلو نمایاں ہو۔ چھینکنے یا کھانسنے سے پیشاب پر کنٹرول نہ رہے۔ آواز بیٹھ جانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ بہت ہمدرد مزاج انسان ہو۔ کسی پر ظلم زیادتی ہوتی برداشت نہ کر سکے حتیٰ کہ جانوروں پر بھی۔ جن بچیوں کو حیض سے پہلے یا شروع میں مرگی کے دورے ہوتے ہوں؛ اُن کو اِس دوا سے بہت فائدہ ملتا ہے۔

کالی بروم (Kalium Bromatum): کالی بروم کا ذکر مرگی کے علاج میں شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔ مجھے اِس کا اندازہ ہے کہ اِس دوا کو مرگی کے مکمل علاج کے لئے مفید سمجھنا مناسب بات نہ ہو گی۔ اِس کے باوجود مَیں نے اِس دوا کو مرگی کے مریضوں کے لئے بہت مفید پایا ہے۔ بالخصوص ایسے مریضوں کے لئے کہ جن کی تکالیف کافی بڑھ چکی ہوں اور وہ ایلوپیتھک ادویات بہت زیادہ عرصہ اِستعمال کرتے رہے ہوں۔ ایلوپیتھک ادویات میں ایسی تکالیف کے علاج کے لئے پوٹاش کا برومائیڈ عام استعمال ہوتا ہے۔ اِس لئے یہ ہومیوپیتھک دوا اُن ادویات کے سائیڈ ایفیکٹس کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اِس وجہ سے کالی بروم مرگی کے دورے کی شدت کم کرنے میں مفید ثابت ہوتی ہے؛ اگرچہ یہ دوا مرض کا مکمل علاج کرنے میں اہم کردار ادا نہیں کر پاتی۔ اِس کا مریض کھویا کھویا، بیزار اور چڑچڑا ہوتا ہے۔

نوٹ: دستبرداری: اس مضمون میں شامل طبی مشورے تشخیص یا علاج کے متبادل نہیں ہے۔ کوئی بھی دوائی، غذا ، ورزش ، یا اضافی طرز عمل شروع کرنے سے پہلے ہمیشہ اپنے معالج سے رجوع کریں۔ یہ مضمون صرف تعلیمی مقاصد کے لئے بنایا گیا ہے-

کیٹاگری میں : صحت

اپنا تبصرہ بھیجیں