عمران خان کیلئے کوئی ادارہ حرکت کرے گا تو ہم سڑکوں پر ہوں گے، فضل الرحمان

 پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ عمران خان کو پاکستان کی سیاست کا غیر ضروری عنصر سمجھتا ہوں ایسے شخص سے مذاکرات نہیں کریں گے، اس کی مہنگائی کو ہم بھگت رہے ہیں اور اسی مہنگائی کو وہ ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہے

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی، زلمے خلیل زاد بھی عمران خان کو سپورٹ کر رہا ہے، سپریم کورٹ تضادات کا شکار ہے، ایک طرف کہتے ہیں 90 دن کے اندر الیکشن دوسری طرف ہمیں کہتے ہیں بات چیت سے معاملہ طے کریں، اگر ہم بات چیت کریں گے تو پھر آئین کدھر ہو گا؟۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ ڈائیلاگ کی بات کر کے خود آئین کی نفی کر رہی ہے، پی ڈی ایم ایسے لوگوں سے بات چیت نہیں کرے گی، سپریم کورٹ نے ایک ہی نشست میں فیصلہ دے دیا اور کہا فیصلہ تسلیم کرو، ہم سیاسی لوگ ہیں رائے رکھتے ہیں، اس طرح تو نہیں ہو سکتا، آئینی طور پر تمام اداروں کا اپنا اپنا دائرہ اختیار ہے، آپ کیوں مداخلت کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کے اختیارات آپ نے سلب کر لیے۔

پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ہٹانا انتظامی معاملہ ہے، پارلیمنٹ کا ایکٹ بنا نہیں اس کیخلاف فیصلہ بھی دے دیا، اگر سپریم کورٹ اس طرح ہے تو اس کو عدالتی مارشل لا سے تعبیر کریں گے، ہر شعبے میں مداخلت ہو گی تو اسے عدالتی مارشل لا کہیں گے، پارلیمنٹ کی حفاظت کیلئے لڑیں گے، پیپلز پارٹی کا اپنا ایک فلسفہ ہے، ہم نے ساڑھے تین سال سڑکوں پر گزارے قدر نہیں کی گئی۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ اب ہم نئے تجربات نہیں کر سکتے، جنرل (ر) فیض حمید کی کس کس بات پر روئیں، پندرہ، پندرہ وکیل اکٹھے ہو جاتے ہیں، وکلا کا ایک ناکام شو ہے، پی ڈی ایم ایک قومی حکومت کی حیثیت رکھتی ہے، پارلیمنٹ جیتے گی ہم پہلے بھی سڑکوں پر آنے کے عادی ہیں، امریکا، یورپ چاہے کوئی اور ادارہ ہو جو ان کیلئے حرکت کرے گا تو پھر سڑکوں پر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت محاذ آرائی سپریم کورٹ کی طرف سے ہے حکومت کی طرف سے نہیں، ماضی میں بھی ایمرجنسی کو سپورٹ نہیں کیا، تحمل سے کام لیا جا رہا ہے تاکہ یہاں تک صورتحال نہ پہنچے، سیاسی لوگوں نے معاملات کو قابو میں رکھا ہوا ہے، عوام بھی سمجھ رہے ہیں کون رکاوٹیں ڈال رہا ہے، عام آدمی کیلئے مشکلات ہیں، ایک سال میں بڑے میگا پراجیکٹ پر کام جاری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں